رجسٹرار پشاور ہائی کورٹ نے ججز اور عدلیہ کی سیکیورٹی سے متعلق کمیٹی کی رپورٹ عدالت میں پیش کر دی۔
عدالت میں چیف جسٹس اشتیاق ابرہیم اور جسٹس ایس ایم عتیق شاہ نے ججز اور عدلیہ کی سیکیورٹی سے متعلق کیس کی سماعت کی۔
دورانِ سماعت ایڈیشنل چیف سیکریٹری داخلہ، ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل، رجسٹرار پشاور ہائیکورٹ عدالت میں پیش ہوئے۔
رجسٹرار نے عدالت کو آگاہ کیا کہ ڈی آئی خان اور ٹانک میں ججز کی سیکیورٹی سے متعلق حکّام کے ساتھ میٹنگز ہوئی ہیں، پولیس نے ججز اور عدلیہ کی سیکیورٹی سےمتعلق مزید وقت مانگا ہے۔
ایڈیشنل چیف سیکریٹری داخلہ عابد مجید نے عدالت کو بتایا کہ ڈی آئی خان اور ٹانک امن و امان کےحوالے سے خطرناک علاقے ہیں، اس بات کا قائل ہوں کہ جوڈیشل افسران کو بلٹ پروف گاڑی ملنی چاہیے، ڈی آئی خان اور ٹانک میں سیکیورٹی فراہم کرنے کے معاملے پر متفق ہو چُکے ہیں۔
اُنہوں نے بتایا کہ صوبہ بھر میں بیک وقت تمام ججز کو سیکیورٹی فراہم کرنا مشکل ہوگا، ڈیڑھ ہزار اہلکار صوبہ بھر میں ججز کی سیکیورٹی پر مامور ہیں، ججز اور عدلیہ کو سیکیورٹی مرحلہ وار فراہم کرنا چاہتے ہیں اور موجودہ سیکیورٹی بھی واپس نہیں لے رہے، بلٹ پروف گاڑیوں کی منظوری کابینہ سے لینا ہوگی، بلٹ پروف گاڑیاں منگوانے میں بھی بہت وقت لگتا ہے۔
چیف جسٹس اشتیاق ابرہیم نے کہا کہ ہم نے کچھ ججز کا تبادلہ کیا ہے، ان سے سیکیورٹی واپس لے لی گئی، ہم ایسا کھلا ہاتھ نہیں دے سکتے، سیکیورٹی واپس لیتے ہیں تو رجسٹرار پشاور ہائی کورٹ کے علم میں لائیں۔
اُنہوں نے کہا کہ پہلے ہم جنوبی اضلاع پر توجہ دیں گے، ہمیں حکومت کی مشکلات کا علم ہے، بوجھ نہیں ڈالنا چاہتے لیکن جوڈیشل مجسٹریٹ جرائم کی تفتیش کا حصّہ ہوتے ہیں، جوڈیشل مجسٹریٹ کو بھی آپ نے سیکیورٹی فراہم کرنی ہوگی اور ججز و عدلیہ کو مرحلہ وار سیکیورٹی فراہم کریں۔
رجسٹرار نے عدالت کو آگاہ کیا کہ ان کے ساتھ میٹینگ ہوئی، یہ سول ججز کی حد تک سیکیورٹی دینے پر آمادہ نہیں ہوئے۔
عدالت نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ فیملی کورٹ کے ججز بھی سخت فیصلے کرتے ہیں، ان کو بھی خطرہ ہوتا ہے، آپ اس پر مزید پیشرفت کریں اور پھر عدالت کو آگاہ کریں۔
عدالت نے مزید پیشرفت رپورٹ طلب کرتے ہوئے کیس کی سماعت ملتوی کردی۔