لندن (سعید نیازی) لندن کے ہسپتالوں نےبیرون ملک سے آئے افراد کے علاج پر 2018 سے 2023کے درمیان اٹھنے والے 112 ملین پاؤنڈ اخراجات کو ناقابل واپسی قرار دیکر ان کے حصول کی کوششیں ترک کر دی ہیں۔ برطانوی میڈیا میں شائع ہونے والی رپورٹ کے مطابق نیشنل ہیلتھ سروس کے ضوابط کے مطابق غیر برطانوی افراد سے نان ارجنٹ علاج کا ہسپتالوں کو معاوضہ وصول کرنا چاہیے۔ ناقدین کے مطابق ایسے مریضوں سے علاج کے اخراجات وصول کرنے کا نظام غیر منصفانہ اور غیر موثر ہے۔ اس ضمن میں لندن کے 132 ایکیوٹ ہاسپٹلز ٹرسٹوں سے رابطہ کیا گیا جواب دینے والے ٹرسٹوں نے علاج کے اخراجات کے حوالے سے 223 ملین پاؤنڈ کی انوائسز بنائیں لیکن ان میں 112 ملین پاؤنڈ کو ناقابل وصولی قرار دے دیا گیا، اگرچہ ایمرجنسی اور جی پی سروس تمام افراد کیلئے مفت ہے لیکن ایسے افراد جو برطانوی شہری نہیں انہیں نان ارجنٹ علاج کیلئے بل ادا کرنے کی ضرورت ہوتی ہے اور این ایچ ایس کے معیاری ریٹس سے 150 فیصد زائد فیس وصول کی جاتی ہے۔ اس پریمیم فیس کا مقصد مریض کی شناخت اور بل کی وصولی کیلئے انتظامی اخراجات کو پورا کرنا ہوتاہے۔ ہیلتھ ٹورازم سے نمٹنے کے لئے کاوشوں کے باوجود کمزور افراد مثلاً پناہ کی متلاشیوں اور اسمگلنگ کے متاثرین کو چھوٹ حاصل ہے۔ بیرون ملک سے آئے مریضوں کے واپس چلے جانے کے سبب ان کے ذمہ واجب الادا رقم وصول کرنے میں ہسپتالوں کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ مشرقی لندن کابارٹس ہیلتھ علاج کے ضمن میں اخراجات وصول نہ کرنے میں 35 ملین پاؤنڈ کے ساتھ سرفہرست ہے جس کے بعد کنگز کالج 17.22 اور لیوشم اینڈ گرینچ کا 11.07 پاؤنڈ کے ساتھ تیسرے نمبر ہے۔ لیوشم اینڈ گرینچ ٹرسٹ نے کہا ہے کہ وہ کبھی کسی کو علاج کرانے سے نہیں روکیں گے خصوصاً بہت سے مریض ہماری میٹرنٹی سروس استعمال کر رہے ہیں۔ برٹش میڈیکل ایسوسی ایشن کا کہنا ہے کہ مریض کے فیس ادا کرنے کی اہلیت کا اندازہ لگانے کا کام ڈاکٹر کا نہیں ہونا چاہئے۔ ڈپارٹمنٹ فار ہیلتھ اینڈ سوشل کیئر کے ترجمان نے کہا ہے کہ توقع کی جاتی ہے کہ این ایچ ایس کے تمام ٹرسٹ ایسے اخراجات جو علاج سے پہلے وصول نہیں کئے گئے ان کی بازیابی کیلئے کوششیں کرینگے اور ایسے افراد جو برطانوی شہری نہیں یا یہاں پر قانونی طور پر مقیم نہیں وہ این ایچ ایس سے علاج کیلئے اخراجات میں اپنا حصہ ڈالیں گے۔ ہم ٹیکس دینے والوں کی رقم کے درست استعمال کیلئے پرعزم ہیں۔