تحریر: اسرار راجہ… لوٹن جنگیں ہمیشہ کسی مقصد کے حصول کیلئے لڑی جاتی ہیں۔ مقصد کا تعین کرنے والے اس کے اصول مرتب کرتے ہیں اور انہی اصولوں کو مدِ نظر رکھ کر وہ اپنے نصب العین کی طرف پہلا قدم اُٹھاتے ہیں ، جنگیں کبھی ختم نہیں ہوتیں اگر جنگیں ختم ہو جاتیں تو امن کا بھی خاتمہ ہو جائے۔ جنگیں مختلف محاذوں پر لڑی جاتی ہیں اور جنگ یا جدوجہد کا مقصد امن ، آفیت ، آسودگی ، ظاہری نفسیاتی ، ذاتی، معاشرتی ، معاشی خوف سے نجات ، ملکی سلامتی سے لیکر انسان کے ذھن میں پیدا ہونے والے انگنت وسوسے ، واہمے ، خود غرضی ، مجرمانہ نفسیات و امراض ، عقیدے کی برتری ، دولت کا حصول اور ظالمانہ سوچ سے لے کر رنگ و نسل کی برتری جیسے عوامل اہمیت کے حامل ہوتے ہیں ۔ جنگیں صرف ہتھیار بند فوجیں ہی نہیں لڑتیں بلکہ فوجوں کو لڑانے والی سوچ و فکر ہی وہ قوت ہوتی ہے جو سپاہی کو ہتھیار مہیا کرتی ہے اور پھر تربیت دے کر میدان جنگ میں لا کھڑا کرتی ہے۔ جنگ لڑنے اور جیتنے کیلئے صرف ہتھیاروں کی ہی نہیں بلکہ عزم ، حوصلے ، قوت ارادی، منصوبہ سازی اور حکمت عملی کی اشد ضرورت ہوتی ہے ۔ فوجی حکمتِ عملی ہمیشہ ہی سیاسی ، اقتصادی ، معاشی اور ملی یکجہتی کی محتاج رہی ہے۔ دنیا میں لڑی جانے والی جنگیں اور دیگر مہمات بیان کردہ اصولوں اور حکمت عملی کے تحت ہی کامیابی سے ہمکنار ہوئیں یا پھر کسی ایک اصول یا تدبیر میں کوتاہی کی وجہ سے آخری مرحلے پر ناکامی میں بدل گئیں ، اگر ہم ایسی غلطیوں اور کوتاہیوں کے نتیجے میں ہونے والی ناکامیوں کو ترتیب دیں تو یہ سلسلہ کبھی ختم نہ ہو جبکہ مقصد کے حصول کیلئے متعین نصب العین پر چل کر مقصد کی تکمیل کرنے والے افراد کی تعداد انتہائی محدود ہوتی ہے، جنگ یا جدوجہد کسی بھی نوعیت کی کیوں نہ ہو ضروری ہے کہ اس کی منصوبہ بندی کرتے وقت زندگی کے سارے عوامل کو مدِ نظر رکھا جائے ، زندگی کے اِن عوامل میں اولیت سیاسی، معاشی اور معاشرتی عمل کی ہے جسے عصبیت ، عقیدت ، عملیت ، ثقافت اور روایت کی قوت سے مضبوط و مستحکم کیا جا تا ہے۔ سیاست کا اولین مقصد معاشرے کی ساری اکائیوں کو باہم جوڑ کر رکھنا اور اُنھیں ایک نظریے اور عقیدے پر مبنی نصب العین پر متفق اور متحد رکھنا ہے، ضروری نہیں کہ ایک ہی مذھب ، عقیدے اور کسی عقلی نظریے کو علمی یا علاقائی قبائیلی روایات کے تحت ماننے والے کسی اعلیٰ مقصد کیلئے کسی قائد یا لیڈر کی قیادت اور اُس کی وضع کردہ حکمت عملی پر متفق اور متحد ہو جائیں ۔ اختلاف رائے اور اظہار رائے کی بہت سی وجوہات ہو سکتی ہیں ۔ ہر معاشرے میں ایسے لوگ ہوتے ہیں جو علم و آگاہی کے باوجود محض خود غرضی ، خود فہمی اور اپنی اہمیت اجاگر کرنے یا پھر کسی ذاتی بغض و عناد ، لالچ اور ہوس اقتدار کے مدِ نظر اختلافات کی وجوہات پیدا کرلیتے ہیں ۔ ابنِ خلدون کے مطابق یہ تیسری قسم کے لوگ ہوتے ہیں جن پر علم کا اثر نہیں ہوتا ۔ ابن خلدون نے قرآن حکیم سے اخذ کردہ فارمولے کے تحت انسانوں کے تین درجے بیان کیے ہیں جن میں پہلا درجہ ذھین افراد کا ہے جو کم محنت سے اعلیٰ علمی، عقلی ، روحانی اور اخلاقی درجات حاصل کر لیتے ہیں، لکھتے ہیں کہ اِن کی مثال زرخیز زمین جیسی ہے جو کم پانی کے باوجود سر سبز و شاداب رہتی ہے جس پر منافع بخش فصلیں اُگتی ہیں اور مخلوق خُدا کو فائدہ پہنچاتی ہیں ، دوسری قسم ان لوگوں کی ہے جو محنت ، محبت اور جستجو سے آگے بڑھتے ہیں اور علمی قابلیت اور عقلی دلائل کی قوت سے پہلی قسم کے لوگوں کے درجے پر فائز ہو جاتے ہیں، یہ جس شعبے سے متعلق ہوں اس میں بام عروج پر پہنچ جاتے ہیں ، ایسے لوگ نرم خو، بردبار ، تحمل مزاج اور غور و فکر کرنے والے مصلح اور معمار ہوتے ہیں ۔ ان کی مثال اُس زمین جیسی ہے جو کنووٗں سے سیراب ہوتی ہے جس کے سینے پر ٹھنڈے اور میٹھے چشمے بہتے ہیں، باغوں اور دلفریب مناظر سے زمین پر ہمیشہ ہی قدرتی حسن کا سایہ پُر بہار رہتا ہے، تیسری قسم کے لوگ کبھی بھی محمود علم سے فیض یاب نہیں ہوتے اور نہ ہی ان پر علم کا کوئی مثبت اور منافع بخش اثر ہوتا ہے ، ان کی زندگی کا مقصد مضریت پھیلانا اور معاشرے میں تفریق و تقسیم کا عمل جاری رکھنا ہے ، شہرت اور شہوت ہی ان کا نصب العین ہوتا ہے اور اسی کے حصول کی خاطر وہ اللہ کے احکامات سے باغی ہو کر دین کی تشریح اپنے مقاصد کے پیشِ نظر کرتے ہیں ۔ شیخ سعدیؒ نے ان کی مثال حضرت نوحؑ کی منکر بیوی اور اصحاب کہفؓ کے کتے سے دی ہے ۔ حضرتِ نوح ؑ کی بیوی پر پیغمبر ؑ کی صحبت کا کوئی اثر نہ ہوا اور اصحابؓ کہف کا کتا چند روز نیکو کاروں میں رہا اور جنت کا حقدار ٹھہرا۔ (جاری ہے)