پنجاب کابینہ نے وزیر اعلیٰ مریم نواز کی زیر صدارت اجلاس میں طویل ترین 80نکاتی ایجنڈے کے تحت عوامی اہمیت کے کئی اہم معاملات نمٹائے۔ ان میں 1958ءکے ایک صدارتی آرڈیننس میں ترمیم کی منظوری بھی شامل ہے جس کے تحت بچوں کو اپاہج بنا کر ان سے بھیک منگوانے کی سزا ایک سال سے بڑھا کر دس سال کر دی گئی ہے ۔ بھیک مانگنا اور منگوانا بہت بڑا سماجی مسئلہ بن چکا ہے۔ اندرون ملک پبلک مقامات پر بھکاریوں کا جم گھٹا لگا رہتا ہے۔ ایسے لوگ بھی ہیں جو حج ، عمرے یا زیارتوں کے نام پر دوسرے ملکوں خصوصاً سعودی عرب چلے جاتے ہیں اور وہاں بھیک مانگتے نظر آتے ہیں۔ کچھ ایسے سفاک اور سماج دشمن گروہ بھی ہیں جو بچوں کو ترغیب دلا کر یا اغوا کر کے انہیں اپاہج بناتے ،ان سے بھیک منگواتے اور ان کی کمائی خود ہڑپ کرنے میں لگے رہتے ہیں۔ بھیک مانگنا یا منگوانا قانوناً جرم ہے۔ جو پکڑا جائے اسے معمولی سی سزا بھی ملتی ہے مگر قانون نافذ کرنے والوں کی مجرمانہ چشم پوشی بلکہ اکثر صورتوں میںا ن کی ملی بھگت سے یہ دھندہ کم ہونے کے بجائے بڑھتا ہی چلا جا رہا ہے۔ معصوم بچوں کو جسمانی اعضا کی ہڈیاں توڑ کر اپاہج بنانا تو اتنا بڑا ظلم ہے جس پر انسانیت کانپ جاتی ہے۔ یہ کریہہ مناظر بھی ہر شہر قصبے اور گائوں میں کہیں نہ کہیں ضرور نظر آتے ہیں۔ حکومت پنجاب نے خاص طور پر بچوں کو اپاہج بنا کر ان سے بھیک منگوانے کی سزا بڑھا کر ایک مستحسن قدم اٹھایا ہے جس کی دوسرے صوبوں کو بھی پیروی کرنی چاہئے۔ بچے قوم کا مستقبل ہیں۔ یہی ظلم کیا کم ہے کہ ملک کے ڈھائی کروڑ بچے اسکولوں سے باہر ہیں۔ اس پر مستزاد یہ کہ ان میں سے بعض سے بھیک منگوائی جا رہی ہے۔ اس گھنائونی سماجی برائی پر قابو پانے کیلئے وفاقی اور صوبائی حکومتوں کو سخت ترین اقدامات کرنے چاہئیں اور مروجہ قوانین کو نہ صرف مزید سخت بلکہ ان پر سختی سے عملدرآمد بھی کرنا چاہئے۔