• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

(گزشتہ سے پیوستہ)

قارئین کرام! جیسا کہ آپ جانتے ہیں کہ: زیر نظر موضوع پر پاکستان کی صحافت سے تشکیل پذیر ہمارے ’’قومی ابلاغی دھارے کی ارتقائی اور روبہ زوال کیفیت پر آئین نو کی سیریز جاری ہے۔ اس موضوع کا انتخاب، حالات حاضرہ کے سلگتے،بھڑکتے قومی زندگی کے واقعات اور ان سے بنتے ہمارے موجود سماجی رویے کے مسلسل اور سنجیدہ علمی نوعیت کے نوٹس کے حوالے سے ہے تاہم پیش منظر کے سیاسی و سماجی واقتصادی حالت حاضرہ میں پاکستانی معاشرے کے بگڑتے اور نئے بنتے بگڑتے رویے (اور رویوں) کے مشاہدے کے نوٹس کے مطابق انہیں قلمبند کرنے کے ساتھ یہاں تک پہنچنے کے تاریخی حقائق کوبھی تجزیے اور نیم تحقیقی کام سے قلمبند کرنے کی سوچ اپروچ بنی تو ’’آئین نو‘‘ کا زیر نظر منتخب موضوع تشکیل پایا۔ لیکن موضوع جاریہ کی تاریخ کو قلمبند کرنے کی سوچ، حالات حاضرہ سے جوڑ کر ریکارڈ کرنے کی سوچ بنی تو پاکستان کے پیام میں مسلمانان ہند کی سیاست میں مسلم صحافت کے کردار کے نتائج کے تجزیے کو لازم جانا اور واضح کیا کہ تحریک پاکستان میں مسلم صحافت کا کردار، تحریک کے بنیادی اور تاریخ ساز پوٹینشل میں نظریے، پلیٹ فارم، قیادت کے برابر ان سب کو مسلسل باکمال و جمال ابلاغی تعاون فراہم کرنے والے معاون کے طور پر بنا، یہ پہلے اول الذکر تینوں تحریک کے موجود پوٹینشل کی اہمیت سے یکساں اہم ترین پوٹینشل تھا جس نے چند عشروں میں مسلمانان ہند کے مایوس و مغلوب سماجی رویے میں انقلابی تبدیلی پیدا کرکے تاریخ سازی (پارٹیشن آف انڈیا) میں برابر کا اہم ترین کردار ادا کیا۔ قارئین کرام! یہ اب تک تین اقساط میںآپ تک پہنچائی گئی پری پارٹیشن پاکستانی قومی ابلاغی دھارے (نیشنل کمیونیکیشن فلو) کے تابناک ابتدائی اور سنہری دور کی تاریخ ہے۔ اسی کا بڑا حصہ جو قیام پاکستان کے بعد نومولود مملکت میں منتقل ہوا، تعمیر وطن کی مطلوب ابلاغی معاونت کی مضبوط بنیاد کے طور پر موجود تھا۔ اس کی قومی خدمات اور اس کے ارتقاء میں آمرانہ اور نااہل اور بیڈ گورننس کی حاصل خزانے و آئین کی خائن سیاسی حکومتوں کی رکاوٹوں کی بنیادی تفصیلات متذکرہ چار اقساط میں بیان کی گئی ہیں۔

قارئین کرام! زیر نظر موضوع کو بالعموم تو تاریخی واقعات و حالات کی ترتیب سے عشرہ بہ عشرہ اور سال بہ سال یعنی تاریخ وار (CHRONOLOGY) ہی مرتب کیا جا رہا ہے تاہم یہ موضوع جیسا کہ اشارتاً عرض کیا گیا، حالات حاضرہ میں ابلاغی دھارے کے بگاڑو جگاڑ کی کیفیت کے حوالے سے منتخب کیا گیا، سو اس حوالے سے موجود صورت حال میں کسی بھی بڑی یا اہم پیش رفت کو زیر بحث لانے کی گنجائش ’’آئین نو‘‘ کی سیریز میں رکھی گئی ہے کہ سلسلہ تاریخ وار میں وقفے میں موجود اہم موضوع کو ایڈریس کرتے جاری رہے۔ ابتدا ہی میں خاکسار کی اس کالم نگاری کا رخ شعوری طور پر حالات حاضرہ کی نیوز رپورٹنگ کے تجزیوں کی طرف ہے۔ ایسی ایک ڈویلپمنٹ آج ایک خبر کی صورت میں ہوئی ہے، یہ کہ :ایسوسی ایشن آف الیکٹرانک میڈیا ایڈیٹرز اینڈ نیوز (ایمینڈ) نے پاکستان میں میڈیا کی آزادی کی صورتحال کو تشویشناک قرار دیا ہے۔ ایمینڈا نے وزیر اعظم شہباز شریف اور پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو سمیت دیگر سیاسی قائدین سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ آزادی اظہار رائے پر پابندیوں کی صورتحال کا سنجیدگی سے جائزہ لیں کیونکہ اس کی بنیادی ذمے داری حکومت پر عائد ہوتی ہے۔ میڈیا کو درپیش چیلنجز کا جائزہ لینے کیلئے ایمینڈا کی ایگزیکٹو کمیٹی کے ورچوئل اجلاس میں اظہار آزادی رائے پر غیر ضروری پابندیوں، صحافیوں کے خلاف قائم مقدمات، پیکا آرڈیننس،

سوشل میڈیا پر غیر ضروری پابندی، انٹرنیٹ کی بندش، مبہم شقوں کی آڑ میں پیمرا کے غیر قانونی نوٹسز اور میڈیا اداروں کو غیر قانونی نقصان پہنچانے کے حربوں پر تفصیلی تبادلہ خیال کیا گیا۔ خبر کےمطابق ایمینڈا نے براڈ کاسٹر ایسوسی ایشن اور پرنٹ میڈیا کی ملکی تنظیموں اے پی این ایس اور سی پی این ای سے بھی اس بڑے قومی کاز (یہ خاکسار کہہ رہا ہے) کیلئے رابطوں کا آغاز کردیا ہے تاکہ تمام اسٹیک ہولڈرز کے ساتھ مل کر مشترکہ حکمت عملی مرتب کی جاسکے۔اسے کفر ٹوٹنا کہیں یاتازہ ہوا کا جھونکا۔ حقیقتاً دونوں ہی ہیں۔ واضح رہے کمیونیکیشن سائنس کے مطابق مسائل کو حل کرنے کی چارپرابلم سولونگ کمیونیکیشن اسٹرٹیجی ہوتی ہیں۔ کمانڈ عقلی دلائل، ترغیب اور خوف ہماری صحافتی تنظیمیں جاری سیاسی و آئینی بحران میں موجود ملکی ’’انٹرسٹنگ ٹائم‘‘ میں انٹرسٹنگ حکومتی سیٹ اپ نے اپنے ’’جائز‘‘ اور عوام کے حوالے سے متنازع مقاصدکیلئے چاروں کو اپنے تئیں بڑی مہارت سے استعمال کیا، لیکن ملک و قوم کیلئے بڑا قومی ڈیزاسٹر اور پاکستان کیلئے بڑے خسارے کا باعث بنا۔ المیہ یہ ہوا کہ ہماری ملکی صحافتی تنظیموں پر سکتہ طاری ہو گیا، یہ اپنا تاریخی کردار بھول کر یا کمانڈ یا خوف، ترغیب کے زور پر جمود میں آ گئیں۔ انہوں نے بھی تو ابلاغی دھارے کے اتنے بڑے حکومتی جگاڑ (اس کے اپنے تئیں) کوئی حرکت نہیں کی اور لب سی لیے گویا کمانڈ اور خوف (فیئر) کے استعمال سے راج داروں نے اپنے تئیں سکہ بند کام دکھایا اور اپنے نہ سمجھ میں آنے والے فوائد کیلئےبڑا خسارہ کیا، کیونکہ ہر دو کی حقیقی ضروریات کا پورا ہونا کمیونیکیشن سائنس کے تابع ہوتا ہے ہماری حکومتیں تو اس سے ہمیشہ نابلد ہی رہیں، اور بڑے بڑے کمیونیکیشن ڈیزاسٹر کئے المیہ تو یہ ہوا کہ برسوں کی اور نومولود صحافتی تنظیموں نے اپنے روایتی اور مطلوب کردار کے برعکس زیادہ ہی خوف اور تابعداری سے پاکستان کو انٹرسٹنگ ٹائم میں دھکیلنےمیں خاموش کردار ادا کیا۔ (جاری ہے)

تازہ ترین