حرف بہ حرف … رخسانہ رخشی، لندن دور حاضر میں بہت سی آسانیوں نے نوجوان نسل کو سست و کاہل، کمزور تعلیمی ریکارڈ اور سیکھنے کے عمل سے روک دیا ہے۔ نوجوان نسل اب کتابوں، ٹیچرز اور امتحانات سے تعلیم کم حاصل کر رہے ہیں اورسوشل میڈیا سے اور دیگراسی قسم کے ذرائع سے حاصل شدہ معلوماتی پوسٹ سے زیادہ استعفادہ کر رہے ہیں۔ وہ جو مقابلے کی فضا پہلے تعلیمی میدان میں دیکھنے کو ملتی تھی اب اس کی جگہ سوشل میڈیا میں مقابلے بازی کا رحجان پیدا ہو گیا ہے۔ اب محنت کی کمائی سے زیادہ سوشل میڈیا کے ذریعے کمانا لوگوں نے اپنا وتیرہ سا بنا لیا ہے۔ یعنی اٹکل کی کمائی میں اضافہ تر ہوتا جا رہا ہے۔ بس آپ سوشل میڈیا پر رسائی کے آسان ترین طریقے ایک دوسرے سے سمجھ اور سیکھ لیجئے پھر تو بس آپ ساتویں آسمان سے گرنے کی ویڈیو سے ایسی کمائی کریں گے کہ پھر آپ کا دماغ ساتویں آسمان پر ہوگا۔ ایک گائوں دیہات کی لڑکی اور جھونپڑی میں رہنے والی کو بھی اسقدر آگہی ہے کہ وہ کیسے اپنی ویڈیو بنا کر اپلوڈ کرتی ہے۔ چاہے اسے معاشرتی حدود و قیود اور شرم و حیا کے ہر لحاظ کو بالائے طاق رکھنا پڑے مگر غربت اور آسان کمائی کی وجہ سے ان کے باپ بھائی بھی ان کا ساتھ دیتے ہیں اور خاموشی سے تمام کارروائی میں حصہ لیتےہیں کہ اس سوشل میڈیا نے تہذیب کا جنازہ تک نکال دیا۔ محنت سے جی چرانا اور سستی و کاہلی اوڑھ لینا، بس یہ زمانہ آگیا ہے کہ فکرات سے بچا جائے بس!۔بات ہو رہی ہے کہ ہمارے یہاں تعلیم کا فقدان تو پہلے ہی تھا مگر سوشل میڈیا کے کئی ایپس نے آسان کمائی کیا متعارف کرائی کہ ہر کوئی اس طرف بڑھنا چاہتا ہے ظاہر ہے اٹکل اور آسان ذرائع کی کمائی کسے بری لگتی ہے۔کئی لوگ جو اپنی ویڈیوز اپ لوڈ کرتے ہیں وہاں اپنی والدہ اور بہن بھائیوں کو بھی شامل کرتے ہیں ۔ کچھ تو مزاج میں اپنی ذہانت کا پرچار کرتے دکھائی دیتے ہیں مگرکہیں کہیں ٹک ٹاکرز جب اپنی والدہ کو شامل کرتے ہیں تو بظاہر سادہ نظر آنے والی خواتین وہاں گالی گلوچ کرتی دکھائی دیتی ہیں جسے فخر سے پیش کر دیا جاتا ہے۔ کوئی جھجھک کوئی عار دکھائی نہیں دیتی ۔ یعنی اب لوگوںکی زندگی کا معیار اونچا جانے کی بجائے گرتا جا رہا ہے۔ جس کی پرواہ اب لوگوں کو نہیں ہے۔ بھلے کچھ بھی ہوتا رہے ان کا مطمع نظر بس پیسہ ہے جو بیٹھے بیٹھائے انہیں حاصل ہوتا رہے۔ایسے ہی ٹک ٹاکرز محنت سے علم حاصل کرنے والوں کو بھی گمراہ کر رہے ہیں وہ بھی سوچیں گے کہ جب ایک آدمی اپنی ویڈیوز کے ذریعے بے پناہ پیسہ بنا رہا ہے تو ہم بھی کچھ ایسا ہی کرتے ہیں کیا ضرورت ہے تعلیم کی اور محنت سے کمانے کی۔ ظاہر ہے جب ٹک ٹاک اور دوسرے سوشل میڈیا ذرائع سے ہزاروں ڈالرز حاصل کرکے لوگوں کو دکھائے جائیں گے تو پھر تمام کی توجہ کا مرکز یہ پیسہ ہی ہوگا تہذیب ، تمیز اور تعلیم نہیں! جب ایک سوشل میڈیا یوزر اپنی شادی کو خوب دھوم دھام سے شو آف کرے گا اسے شادی پر قیمتی ترین تحائف ملیں گے، بے پناہ پیسوں کی برسات ہوگی تو ایسے میں کس کی رال نہ ٹپکے گی؟۔بات صرف یہ کہ بہت سے بچے اعلیٰ تعلیم حاصل کرکے اپنا کیرئیر بنانا چاہتے ہیں وہ اس سوشل میڈیا کی خبروں سے اور انوکھی سرگرمیوں سے ڈسٹرب ضرور ہو رہے ہیں۔ یہ ٹک ٹاکرز اگر چاہیں تو پہلے اپنی تعلیم مکمل کریں پھر کچھ بھی کریں کم از کم شعور تو پختہ ہونا چاہئے پہلے ۔ ویسے بھی انٹرنیٹ کے اس دور میں سیکھنے کا عمل آسان ہو گیا ہے دلچسپ لوازمات کیساتھ تعلیمی مدراج طے کئے جاسکتے ہیں۔ بغیر ٹیوٹرز اور آن لائن پڑھائی نے آسانیاں فراہم کر دی ہیں۔ وہ اضطرابی کیفیت جو طلبہ کو امتحانات کے دوران ہوا کرتی تھی وہ اب سوشل میڈیا کی مدد سے کم ہو گئی ہے کیونکہ آپ اپنی پریشانی کا حل گوگل پر سرچ کرکے حاصل کر سکتے ہیں۔ حیت تو ہمیں تب ہوتی ہے جب بڑے بڑے بزرگ اور سمجھ دار قسم کے لوگ بھی اس سوشل میڈیا کا استعمال بے دریغ کرتے ہیں۔تعلیمی لحاظ سے ہماری حالت نہایت پسماندہ ہے پھر یہ سوشل میڈیا نے رہی سہی کسربھی پوری کر دی ہے۔ آج طلبہ تعلیم کی بجائے ٹک ٹاک کے کمائی کے ڈھنگ سیکھتے ہیں۔ جگہ جگہ بتایا جاتا ہے کہ ٹک ٹاک کے ذریعے پیسے کمانا اب کیسے ممکن ہے، ٹک ٹاک نے تخلیق اور رابطے کیلئے مزید طریقے متعارف کرا دیئے، ٹک ٹاک کا استعمال، ٹک ٹاک پر پیسے کیسے ملتے ہیں، ٹک ٹاک فلٹرز، ٹک ٹاک ویڈیوز وغیرہ وغیرہ۔ یہ تمام معلومات کے ذرائع پاکستان میں پھیلائے جاتے ہیں کہ کیسے ٹاک ٹاک نے پاکستان میں کریسٹر پورٹل متعارف کرایا ہے۔ بھارت میں اس ایپ پر پابندی تھی اسے فحاشی پھیلانے کا سبق قرار دیا گیا تھا مگر چینی کمپنی کے مالک ڈانسی نے تامل ناڈو عدالت کے فیصلے کو چیلنج کرتے ہوئے عدالت کو درخواست دی تھی کہ ہم اپنے پلیٹ فارم کی کڑی نگرانی کرتے ہیں اور خلاف ضابطہ ویڈیوز کو فوری طور پر ہٹا دیا جاتا ہے۔ لہٰذا ٹک ٹاک پر عائد ہونے والا عریانی پھیلانے کا الزام بے بنیاد اور غلط ہے یہ پابندی پاکستان میں بھی بارہا لگی ہے مگر پابندی ہٹا دی گئی ہے کہ وہ غیر اخلاقی مواد پر قابو پائے گی پاکستان میں پابندی لگی تو یہی کہا گیا کہ پھر گوگل پر بھی پابندی لگائی جائے، بلکہ وجہ تعلیمی غفلت ہونا چاہئے اور نوجوان نسل کی اخلاقی کمزوری کی وجہ سے پابندی لگنا چاہئے۔