• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاکستان میں رونما ہونیوالے ہر سیاسی حادثے یا المیے کو کسی نہ کسی کیخلاف مکافاتِ عمل قرار دے خود کو بری الذمہ قرار دیدیا جاتا ہے۔ یہ سلسلہ قیامِ پاکستان سے شروع ہوا تھا اور آج تک جاری ہے۔ اور تو اور پاکستان کے پہلے وزیرِ اعظم لیاقت علی خان کے قتل کے بارے میں جہاں اور کئی سازشی نظریات پھیلائے گئے ان میں سے ایک یہ بھی تھا کہ انہوں نے دانستہ طور پر قائدِاعظم کو وہ تمام طبی سہولیات بشمول ایمبولینس بروقت اور صحیح حالت میں نہیں پہنچائی تھیں اور قائدِاعظم اسی غفلت کی وجہ سے انتقال کر گئے۔ لہٰذا لیاقت علی خان کا قتل اسی مکافاتِ عمل کا حصّہ ہے۔ پاکستان کے پہلے فوجی آمر جنرل ایوب خان نے پاکستان کے پہلے صدر جنرل اسکندر مرزا کیساتھ ملکر پاکستان میں پہلا مارشل لانافذ کیا تھا۔ جس میں اسکندر مرزا نے جنرل ایوب خان کو چیف مارشل لا ایڈمنسٹریٹر مقرر کیا تھا لیکن 20دن کے بعد جنرل ایوب خان نے اپنے قریبی دوست اسکندر مرزا سے غدّاری کرتے ہوئے اسے اقتدار سے فارغ کر دیا۔ آئین ٹالبوٹ اپنی کتاب پاکستان کی سیاسی تاریخ میں لکھتے ہیں کہ جب اسکندر مرزا نے ملک میں مارشل لا نافذ کیا تو انہوں نے قوم سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ’’اب پاکستان میں غدّاروں کیلئے کوئی جگہ نہیں ۔ اسلئے بہتر ہے کہ وہ جتنی جلدی ہو خود ہی ملک چھوڑ جائیں‘‘۔ قسمت دیکھیے کہ خود اسکندر مرزا کو 20دنوں کے اندر پاکستان چھوڑنا پڑا۔ ایوب خان نے اسکندر مرزا کے بعد بڑے طمطراق سے تقریباً گیارہ سال حکومت کی جس میں وہ پاکستان کے سیاہ و سفید کا مالک بن گیا۔ اس نے پاکستان کو اپنی مرضی کا ایک آئین بھی دیا جسے 62کا صدارتی آئین کہا جاتا ہے۔ سیاسی مبصرین نے اس آئین کو لائل پور (اب فیصل آباد) کا گھنٹہ گھر بھی قرار دیا۔ کیونکہ جس بازار سے بھی گزریں آپ کے سامنے گھنٹہ گھر آجاتاہے۔ اسی طرح آئین میں اسکی اپنی حیثیت گھنٹہ گھر کی تھی جسکے گرد سارا آئین گھومتا تھا۔ اسی آئین کیخلاف عوامی شاعر حبیب جالب نے اپنی مشہور نظم ’’دستور‘‘ لکھی تھی۔ اس آئین میں یہ بھی درج تھا کہ صدرِ مملکت کی موت، علیحدگی یا غیرحاضری میں قومی اسمبلی کے اسپیکر کو صدرِ مملکت کے اختیارات حاصل ہونگے۔ اپنے اقتدار کے دوران جنرل ایوب خان نے فوج میں بھی اپنی مرضی کے وفادار افسران کو ترقیاں دیں۔ جن میں ایک جنرل آغا یحییٰ خان بھی شامل تھے۔ لیکن جب ایوب خان کیخلاف عوامی تحریک شروع ہوئی تو یحییٰ خان نے درپردہ اس کی حمایت شروع کردی۔ ایس ایم ظفر اپنی کتاب ’’ڈکٹیٹر کون‘‘ میں لکھتے ہیں کہ ایک مرتبہ کابینہ کی میٹنگ کے دوران وزارتِ داخلہ کے افسران نے یہ رپورٹ پیش کی کہ ملک میں حالات بہتر ہو رہے ہیں اپوزیشن کی تحریک کا زور ٹوٹ گیا ہے لہٰذا اپوزیشن سے بات چیت کا آغاز کر دینا چاہئے۔ اس پر جنرل یحییٰ کھڑے ہوگئے۔ انہوں نے اپنی جیب سے ایک کاغذ نکالا اور پڑھنے لگے کہ ’’ میری اطلاعات کے مطابق حالات پہلے سے بدتر ہو چکے ہیں اور ملک میں مارشل لاکے نفاذ کے علاوہ اور کوئی چارہ نہیں‘‘ انہوں نے ایوب خان کو مستعفی ہونے پر مجبور کر دیا۔ 62ء کے آئین کے مطابق اس وقت کے قومی اسمبلی کے اسپیکر جبار خان ،جن کا تعلق مشرقی پاکستان سے تھا، اقتدار انکے حوالے کرنا چاہئے تھا۔ مگر جنرل یحییٰ خان نے ملک میں مارشل لا لگا کر اقتدار خود سنبھال لیا۔ اس وقت بھی یہی کہا گیا کہ جنرل ایوب خان نے جو کچھ اسکندر مرزا کیساتھ کیا تھا وہی اس کیساتھ ہوا۔ اسی مکافاتِ عمل کے چکر میں پاکستان دولخت ہوگیا۔ شیخ مجیب الرحمان، اندرا گاندھی اور ذوالفقارعلی بھٹو کے قتل کے بعد ہم یہی سوچ کر خوش ہوتے رہے کہ پاکستان کو دولخت کرنے کے مبینّہ مجرم مکافاتِ عمل کا شکار ہوگئے ہیں۔ جنرل ضیاء کی ہوائی حادثے میں ہلاکت کو بھی مکافاتِ عمل کے کھاتے میں ڈال دیا گیا کہ جس طرح ضیاء نے ایک امریکی سازش کے تحت اپنے باس ذوالفقار علی بھٹو کیخلاف سازشیں کرکے انہیں موت کے گھاٹ اتار دیا تھا۔ اسی طرح 17اگست 1988ء کو ضیاء بھی امریکہ کے ایما پر اپنے ساتھیوں کی مبیّنہ سازشوں کے ذریعے مارے گئے۔ اسکے بعد 90ء کی پوری دہائی میں محترمہ بے نظیر بھٹو اور نواز شریف کے درمیان جو اقتدار کی میوزیکل چیئر کا کھیل کھیلا گیا اسے بھی مکافاتِ عمل کا نام دیدیا گیا۔ 12 اکتوبر 1999ء کو جب جنرل پرویز مشرف نے نواز شریف کی حکومت کا تختہ الٹا اور نوازشریف کی پارٹی پر ابتلا کا دور شروع ہوا تو کہا گیا کہ جو کچھ نوازشریف نے محترمہ بے نظیر بھٹو کیخلاف کیا تھا اب وہ خود مکافاتِ عمل کا شکار ہو گیا ہے۔ البتّہ اس مرتبہ یہ ہوا کہ کچھ سالوں کے بعد مکافاتِ عمل کا شکار ہونیوالی دونوں پارٹیوں نے اپنی غلطیوں کو تسلیم کرتے ہوئے میثاقِ جمہوریت کے ذریعے سیاسی عمل میں اشتراک کے ذریعے ملک میں جمہوری روایات کو مستحکم کرنے کی کوشش کی۔ لیکن اس جرم کی پاداش میں محترمہ بینظیر بھٹو کو اپنی جان کی قربانی دینا پڑ گئی ۔ اسکے بعد عمران خان کی آمد کو دونوں روایتی پارٹیوں کیلئے مکافاتِ عمل قرار دیدیا گیا۔ اب عمران خان کے زوال ، قیدو بند اور اسٹیبلشمنٹ کیخلاف اسکے جارحانہ روّیوں کو پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ مکافاتِ عمل کا نام دے رہی ہیں۔ پیپلز پارٹی والے یہ سمجھتے ہیں کہ ہماری پوری لیڈر شپ کو جسمانی طور پر ختم کردیا گیا لیکن پیپلز پارٹی نے اسٹیبلشمنٹ اور ریاستی اداروں کیخلاف وہ پر تشدّد اور جارحانہ روّیہ اختیار نہیں کیا جو آج پی ٹی آئی کر رہی ہے۔ یہ ریاست کیلئے مکافاتِ عمل ہے۔اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ہم کب تک اپنی غلطیوں کو مکافاتِ عمل کانام دے کر مزید حماقتیں کرتے رہیں گے؟ میرا آج کا شعر

مسئلہ تو ہے صحیح تشخیص کا ورنہ اے جانؔ

مرض تو کوئی جہاں میں لا دوا ہوتا نہیں

تازہ ترین