ہالینڈ کی ڈائری… راجہ فاروق آج کا کالم میں ان نوجوان پاکستانیوں کی نذر کر رہا ہوں جو اچھے مستقبل کے حصول کے لئے یورپ آنے کے شوق میں ایجنٹ مافیا کو لاکھوں روپے دے کر لیبیا پہنچے ہیں اور وہاں سے اٹلی کا سمندری سفر کشتیوں سے سمندری لہروں بے رحم موجوں کی نذر ہوجاتے ہیں۔ گزشتہ دنوں بھی ایسا اندوہناک واقعہ رونما ہوا ہے۔ سمندرمیں ڈوب جانے کا یہ ایک پہلا واقعہ نہیں اس سے قبل بھی بیسیوں ایسے المناک واقعات ہو چکے ہیں۔ پچھلے ہفتے 50کے قریب پاکستانی نوجوان تین مختلف کشتی حادثات میں اپنی جانیں گنوا بیٹھے۔ شنید ہے کہ لیبیا میں تقر یباً5ہزار پاکستانی اس سفر کے لئے منتظر بیٹھے ہیں آئے دن یہ واقعات معمول بن چکے ہیں ایجنٹ مافیا سہانے خواب دکھا کر لاکھوں روپے ہتھیا کر ان کی زندگیاں خطرے میں ڈالتے ہیں آخر کب تک یہ سلسلہ چلے گا۔ ان حادثات میں زیادہ تر تعداد کم عمر جوانوں کی ہوتی ہے حالیہ حادثات میں بھی 18سال سے کم عمر کے بچوں کی بھی تعداد زیادہ تھی اس بات میں کو ئی شک نہیں کہ پاکستان میں بے روزگاری پائی جاتی ہے۔ والدین کو اپنے بچوں کی بہتر رہنمائی کرنا ہو گی حکومت پاکستان کو بھی ان واقعات کا نوٹس لینا ہوگا۔ بعض اوقات ایسے واقعات میں لاشیں ملنا ہی دشوار ہوتا ہے میں نے حادثات میں شکار ہونے والے افراد کی تصاویر پر نظر ڈالی تو مجھے بہت کم عمر بچے نظر آئے۔ ایسے المناک واقعات سے ہر ذی شعور پاکستانی کو دکھ ہوتا ہے۔ مشاہدے میں آیا ہے کہ زیادہ تر معاشی مہاجرین کا تعلق پنجاب کے اضلاع گجرات، منڈی بہاؤالدین، جہلم، سر گودھا سے ہی ہوتا ہے یہ بات قابل تشویش ہے کہ ان دنوں اوورسیز پاکستانیز ملکی سیاسی پارٹیوں کے جھنڈے تھامے سرگرم عمل ہیں۔ سچی بات ہے ہمیں اپنی سیاسی وابستگیوں سے ہٹ کر آپس میں یکجہتی اور اتفاق اتحاد کرنا ہوگا ہم سب کا پردیس میں یگانگت کا نشان سبز ہلالی پرچم ہی ہونا چاہیے۔ ریاست عوام کی ماں ہوتی ہے تاہم اوورسیز پاکستانی محب الوطن کمیونٹی جو پاکستان سے والہانہ محبت رکھتی ہے یہ سب پاکستانی ہیں اگرچہ مختلف سیاسی سوچ کے حامل ہیں قطعاً ایک پارٹی سے وابستگی والے لوگ نہیں ہیں۔