• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
تحریر: محمد صادق کھوکھر … لیسٹر
21ویں صدی کے باشندے بڑے طمطراق سے کہتے پھرتے ہیں کہ وہ ترقی یافتہ دور کے باشندے ہیں۔ انہیں اپنی ترقی پر بڑا ناز ہے کیونکہ موجودہ دور میں سائنس اور ٹیکنالوجی نے بڑی ترقی کی ہے البتہ اس ترقی کے باوجود انسانی رویوں میں بے پناہ زوال آیا ہے۔ یہ دنیا دن بدن بے حسی اور اخلاقی رویوں میں پستی کی طرف تیزی سے گامزن ہے، تہذیب حاضرہ کے علمبرداروں کی بے حسی کا یہ عالم ہے کہ ان کے سامنے تقریباً نصف لاکھ باشندوں کو اس طرح صفحہ ہستی سے مٹا دیا گیا ہے جیسے کچھ ہوا ہی نہیں۔ یہ قتلِ عام آج بھی جاری و ساری ہے۔ اس وقت غزہ کی کوئی عمارت محفوظ نہیں رہی، بلکہ یہ علاقہ ملبے کا ڈھیر بن چکا ہے۔ یہ بدقسمت باشندے ستر برس سے در بدر کی ٹھوکریں کھا رہے ہیں۔ یہاں کے باشندے ادویات اور خوراک نہ ملنے کے باعث زندگی سے ہاتھ دھو رہے ہیں۔ بچوں کے گلے ضروریات زندگی کی عدم دستیابی کے باعث بلک بلک کر خشک ہو چکے ہیں، ان کی ماؤں کے آنسو تھمنے کا نام نہیں لیتے۔ بوڑھے والدین موسم کی شدت برداشت نہ کر سکنے کے باعث دم توڑ رہے ہیں، وہ خوراک کے ایک ایک نوالے کو ترس گے ہیں۔ پینے کے لیے صاف پانی مسیر نہیں۔ سونے کے لیے چھت نہیں، کھلے آسمان تلے یخ بستہ سردی میں وہ راتیں بسر کرنے پر مجبور ہیں۔ ان کے شفا خانے باقی نہیں رہے، رفع حاجت کے لیے ٹائیلٹ روم تک باقی نہیں رہے۔ سفاک دشمن نے ان کے ہسپتالوں اور سکولوں کو بھی تباہ و برباد کرکے رکھ دیا ہے۔ اس سب کے باوجود ظالم آج بھی دنیا میں مظلومیت کا رونا روتے ہیں اور بے بس مظلوم باشندوں کو دہشت گرد کہتے ہوئے رتی بھر شرم سار نہیں ہوتے، یہ کیسا ظلم ہے کہ فلسطین کے باشندوں کو زبردستی بے دخل کر کے ان کی زمینوں پر قبضہ کرنے والے معصوم قرار دیئے جا رہے ہیں اور فلسطین کے اصل باشندوں کو دہشت گرد قرار دیا جاتا ہے۔ صرف یہی نہیں بلکہ امن کی علمبردار بڑی طاقتیں ظالم قابضین کی پیٹھ بھی ٹھونکتی ہیں۔ اب بے شرمی اور ہٹ دھرمی سے شام کے علاقوں پر بھی قبضہ کیا جا رہا ہے، اس کھلے ظلم کے خلاف سلامتی کونسل میں اگر کوئی قرارداد پیش ہوتی ہے تو ڈھٹائی سے اسے ویٹو کر دیا جاتا ہے، یہی ویٹو کرنے والے جمہوریت اور امن کے علمبردار بلکہ خود ساختہ تھانے دار بنے بیٹھے ہیں، اس سے بھی بڑا حیرت انگیز اور شرم ناک رویہ یہ ہے کہ دنیا نے اس تھانے داری کو قبول کیا ہوا ہے اور کچھ ممالک اس تھانے دار کا بستہ اٹھانے میں فخر محسوس کرتے ہیں، اس تہذیبی بالا دستی پر فخر کیا جا رہا ہے، جدید تہذیب و تمدن کے ڈھول پیٹے جا رہے ہیں۔ اس پر اس طرح فخر و تکبر کا اظہار ہو رہا ہے جیسے یہی انسان کی اصل معراج ہے۔ نام نہاد ترقی کا یہی وہ احساسِ تفاخر ہے جس کے باعث آج فیصلہ سازوں کو مظلوم بچوں کی چیخیں اور عورتوں اور بوڑھوں کی آہ و پکار سنائی نہیں دیتی۔ کیونکہ آج کا انسان واقعی بے حس ہو چکا ہے، اگر دنیا میں تھوڑی بہت بھی انسانیت ہوتی تو آج انسانیت سسک سسک کر دم نہ توڑ رہی ہوتی، بے شک تحقیق کر کے دیکھ لیں کہ عہد کہن کے باشندوں نے بھی اتنا خون نہیں بہایا تھا، جتنا خون گزشتہ سو برس میں نام نہاد ترقی یافتہ اقوام نے بہا دیا ہے۔ جتنی خون ریزی گزشتہ 100برس میں ہوئی ہے، سابقہ انسانی تاریخ میں مجموعی طور پر بھی اتنی نہیں ہوئی، کروڑوں انسان دو عالمی جنگوں میں ہلاک ہوئے تھے اور لاکھوں بے گناہ گزشتہ تیس چالیس برسوں میں صرف مشرقِ وسطیٰ میں شہید کیے جا چکے ہیں اور یہ سفاکانہ عمل ابھی مہذب اقوام کی سرپرستی میں جاری و ساری ہے۔ عالمی طاقتیں عیاری سے مشرقِ وسطیٰ کے وسائل ہڑپ کر چکی ہیں لیکن ہوس ابھی باقی ہے ابھی تو ڈونلڈ ٹرمپ جیسے متلون مزاج حکمران میدان میں اترے ہیں، حلف اٹھانے سے قبل ہی انہوں نے دھمکیاں دینا شروع کر دی ہیں اس ناگفتہ صورِتحال میں رب کائنات سے دعا ہے کہ وہ ظالم طاقتوں کو انجام تک پہنچا دے تاکہ اس کی مخلوق سکھ اور چین کا سانس لے سکے۔
یورپ سے سے مزید