ترجمان دفتر خارجہ ممتاز زہرہ بلوچ نے جیو سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے درست طور پر دو ٹوک الفاظ میں واضح کیا ہے کہ امریکی پابندیوں سے پاکستان کے دفاع اور دفاعی فیصلوں پر کوئی فرق نہیں پڑے گا۔ماضی میں بھی بہت سی پابندیاں لگیں مگر ہم نے پاکستان کی سیکورٹی پر توجہ مرکوز رکھی۔ پابندیوں کے حوالے سے اسلام آباد کا ردعمل اس اصولی موقف کے عین مطابق ہے کہ پاکستان کی اسٹرٹیجک صلاحیت اس کی علاقائی خود مختاری کی ضرورت ہے اور جنوبی ایشیا میں امن و امان برقرار رکھنے کا ذریعہ بھی۔ ملک کی سیکورٹی کا فیصلہ پاکستانی قوم کرے گی۔ ہمارے میزائل پروگرام پر پابندیاں غیر ضروری ،نا انصافی اور امتیا زی طرز عمل پر مبنی ہیں۔ گزشتہ دنوں امریکہ نے پاکستان کے چار اداروں پر پابندی کا اعلان کرتے ہوئے یہ مضحکہ خیز الزام بھی لگایا تھا کہ پاکستان ایسے میزائل بنا رہا ہے جو جنوبی ایشیا سے باہر کے اہداف بشمول امریکہ کو بھی نشانہ بنا سکتے ہیں۔ کوئی بھی قابل فہم تجزیہ نگار اس دعوے کو مسترد کر دے گا۔ پاکستان کسی بھی صورت میں اس پوزیشن میں نہیں کہ دنیا کے کسی بھی تنازعہ میں اس کی امریکہ سے کوئی چپقلش ہو اور وہ ایسا کیونکر چاہے گا؟ البتہ یہ عجیب بیان پس پردہ بھارت کو خوش کرنے کی کوشش ہو سکتی ہے ۔ امریکہ چین کے خلاف بھارت کو مضبوط اتحاد کے طور پر دیکھتا ہے اور بھارت پاکستان کے جوہری اور میزائل پروگرام کو خطے پر اپنے تسلط کی راہ میں بڑی رکاوٹ سمجھتا ہے۔ پاکستان کا پورا قومی سلامتی کا نظریہ ممکنہ بھارتی خطرے کے گرد گھومتا ہے۔ یہ حقیقت پوری دنیا کے سامنے ہے کہ میزائل سسٹم اور جوہری ٹیکنالوجی کی دوڑ بھارت نے شروع کی اور بڑی طاقتوں کو بھارت کے خلاف قدم اٹھانا چاہئے۔ 1948 ٗ 1965 ٗ 1971 اور کارگل کے تنازعات کے پیش نظر پاکستان کی یہ تشویش درست بھی ہے۔