مولانا شعیب احمد فردوس
سیدنا صدیق اکبرؓ آفتاب نبوت کے ان درخشاں و تاباں ستاروں میں سے ایک ہیں، جن کی وفائیں بھی باکمال تھیں، جن کی محبت بھی بے مثال ،جو جاں نثاری میں آپ اپنی مثال تھے۔ حضرت ابوبکر صدیقؓ نے پیغمبر اسلام حضرت محمد ﷺ کی دعوت پر بلاتامل لبیک کہا اور آپ کی خوش نصیبی کہ بالغ مردوں میں سب سے پہلے حلقۂ بگوش اسلام ہوئے۔
سفر ہجرت میں رسول اکرمﷺ کی رفاقت کی بناء پر قرآن کریم نے حضرت ابوبکر صدیقؓ کو ’’ثانی اثنین‘‘ (دو میں کا دوسرا) کا لقب دیا۔ اس کے علاوہ قرآن کریم کی چند دیگر آیات مبارکہ میں بھی سیدنا ابوبکر صدیقؓ کی عظمت و بزرگی کے اشارے ملتے ہیں، چناں چہ ایک مقام پر اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں آپؓ کو ’’اولو الفضل‘‘ (بزرگی والے) فرمایا۔
سورۃ اللیل میں ’’اتقیٰ (سب سے زیادہ پرہیز گار) کے لفظ کے ذریعے مدحت سرائی فرمائی۔ اسی لفظ یعنی ’’اتقیٰ‘‘ سے توصیف کی بناء پر حضرت ابوبکر صدیقؓ ’’اکرم‘‘ (بہت زیادہ عزت والے) کا بھی مصداق ہوئے، کیوں کہ قرآن کریم میں ہے۔ بلاشبہ، اللہ کے نزدیک تم سب میں زیادہ عزت والا وہ ہے جو زیادہ پرہیز گار ہو۔(سورۃ الحجرات)
خاتم النبیین حضرت محمد مصطفیﷺ کے دو مبارک سفر بہت یادرگار ہیں۔ پہلا سفر معراج کا اور دوسرا ہجرت کا۔ ایک سفر آسمانوں کا اور دوسرا زمین کا، حسن اتفاق کہ دونوں ہی سفر رات میں ہوئے۔ ایک میں سرکار دو عالم ﷺ کے رفیق حضرت جبرائیل امین علیہ السلام تھے، تو دوسرے میں حضرت ابوبکر صدیقؓ ہمراہ تھے۔
آں حضرت ﷺ کے ان دونوں پاکیزہ ساتھیوں میں تھوڑا سا فرق ہے کہ ایک سفر کے ساتھی نے تو ’’سدرۃ المنتہیٰ‘‘ تک ساتھ نبھایا، مگر صدیق اکبرؓ نے امام الانبیاء حضرت محمد مصطفیٰ ﷺکا ایسا ساتھ نبھایا کہ قیامت تک سرور کونینﷺ سے جدا نہیں ہوں گے۔
حضرت ابوبکر صدیقؓ کی سعادت کہ جب مشرکین مکہ نے سرکار دو عالم سیدنا محمد مصطفیٰ ﷺ کی تکذیب کی،تو آپ نے آں حضرت ﷺتصدیق کی۔ جب بڑے بڑے سرداران قریش نے ساقی کوثر،شافع روز محشر حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ سے عداوت کی،تو حضرت ابوبکر صدیقؓ نے اسی وقت محبوب رب کائنات ﷺ سے محبت کی۔
غار ثور میں حضرت سیدنا ابوبکر صدیقؓ نے عشق و وفا اور ایثار و جاں نثاری کا جو فقید المثال مظاہرہ فرمایا، اسے اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں ذکر فرما کر انمٹ اور غیر فانی بنادیا۔
ہجرت نبویؐ کے موقع پر جو خدمت اور پہرے داری حضرت ابوبکر صدیقؓ نے کی ،اس پر حضرت عمر فاروقؓ فرماتے تھے: ’’ابوبکر صدیقؓ صرف شب ہجرت میں غار ثور کی خدمت اور مرتدین سے قتال کا کارنامہ مجھے دے دیں اور اس کے بدلے عمرؓ سے ساری عمر کے اعمال لے لیں تو میں ہی فائدے میں رہوں گا۔‘‘
حضرت ابوبکر صدیقؓ کو غزوۂ بدر،اُحد، حمراء الاسد، غزوۂ بنی نضیر، بنی مصطلق، خندق، حدیبیہ، خیبر، فتح مکہ، تبوک، حنین، سمیت تمام غزوات میں رفاقت رسول ﷺ کا شرف حاصل رہا۔ غزوۂ تبوک میں حضرت ابوبکر صدیقؓ نے ایثار و انفاق فی سبیل اللہ کی جو مثال قائم فرمائی، وہ تاریخ اسلام کے سنہری اوراق پر آب زر سے لکھنے کے قابل ہے۔
یہ وہ موقع تھا کہ تقریباً تمام ہی صاحب استطاعت حضرات نے حسب استطاعت اس عسرت اورتنگی کے موقع پر مال و اسباب سے دینِ اسلام اور پیغمبر اسلام حضرت محمد ﷺ کی نصرت فرمائی،لیکن صدیق اکبرؓ اس موقع پر بھی اول نمبر پر رہے کہ اللہ اور اس کے رسول ﷺکے نام نامی اسم گرامی کو چھوڑ کر جو کچھ ان کے پاس تھا، وہ سب نبی اکرم ﷺ کے قدموں میں لاکر رکھ دیا۔
حضرت سیّدنا محمد مصطفیٰ ﷺکی حیات طیبہ کے آخری ایام میں،حضرت ابوبکر صدیقؓ نے آں حضرت ﷺ کے حکم پر مسجد نبویؐ میں مصلیٰ نبویؐ پر سترہ نمازوں کی امامت فرمائی۔ یہ شاہ دو عالم حضرت محمد مصطفیٰ ﷺکے وصال کے بعد خلافت صدیقؓ کی طرف واضح اشارہ تھا۔ مانعین زکوٰۃ، منکرین ختم نبوت اور مرتدین سے جہاد حضرت ابوبکر صدیقؓ کے دور خلافت کے کارہائے نمایاں ہیں۔
آں حضرتﷺ کے وصال کے بعد، حضرت ابوبکر صدیقؓ زیادہ عرصہ زندہ نہ رہ سکے۔ بقول حضرت عبداللہ بن عمرؓ : ’’رسول اللہﷺ کے فراق کا صدمہ آپؓ سے برداشت نہ ہوا۔‘‘ 22 جمادی الثانیہ،13 ہجری،63 برس کی عمر میں خالق حقیقی سے جاملے۔ مدت خلافت 2 برس 3 ماہ اور گیارہ دن تھی۔ بعد از وصال حضرت ابوبکر صدیقؓ نے پہلوئے مصطفیٰﷺ میں جگہ پائی۔