• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
روز آشنائی … تنویر زمان خان، لندن
امریکہ اور یورپ کی طرف سے اسرائیل کی دہشت گردی کی ہر سیاہ و سفید پر سپورٹ نے ان کے حقوق انسانی اور جمہوریت پسندی کے تمام دعوؤں کو تار تار کر دیا ہے۔ لیکن وہ آنکھیں بند کرکے اپنے ایجنڈے کی تکمیل کی جانب جارحانہ انداز میں بڑھتے ہی چلے جا رہےہیں۔ بات حماس کے حملے سے شروع ہوتی ہے جسے کہتے ہیں موساد کو جو کہ اسرائیل کی خفیہ ایجنسی ہے اسے تمام چیزوں کا علم تھا بلکہ اس نے نہ صرف ایسا ہونے دیا بلکہ ایسا ہونے میں مدد بھی دی ہوگی۔ موساد ایک انتہائی طاقتور خفیہ ایجنسی ہے جس نے فلسطینیوں کے تمام فوجی اور غیر فوجی اداروں میں اپنے ایجنٹ بٹھا رکھے ہیں۔ ایسا ممکن نہیں ہے کہ اسرائیل پر حماس نے چھپ کے اور اچانک اتنا بڑا حملہ کر دیا ہو اور اسرائیل کو حملہ ہونے کے بعد ہی علم ہوا ہو۔ پھر اسرائیل نے جس بے دردی سے غزہ میں تباہی مچائی ہے۔ پچاس ہزار سے زائد فلسطینی شہید کر دیئے اور غزہ پر اپنا قبضہ مکمل ہونے کے بعد اب لبنان پر چڑھائی شروع کردی ہے۔ ساتھ ہی شام کے صدر بشرالاسد کے اقتدار کا جسے ہی 8 دسمبر کو سورج غروب ہوا فوراً شام پر اسرائیل نے حملہ کردیا اور اپنے گریٹر اسرائیل کے ایجنڈے کی تکمیل شروع کردی۔ یہودیوں کا دعویٰ ہے کہ بابلی اسرائیل کی بیان کردہ سرحدوں کے مطابق لبنان شام اور اردن کے کچھ علاقے اس اسرائیل کا حصہ ہیں جس کا خدا نے ان سے وعدہ کر رکھا ہے ۔ اسی دماغی فتور کے مطابق غزہ پر تو قبضہ کر ہی لیا ہے اب لبنان میں گولان کی پہاڑیوںپر شام کے مطلوبہ علاقوں پر نہ صرف قبضہ کر چکا ہے بلکہ وہاں اپنی توسیع پسندانہ سیٹلمنٹ بھی شروع کر دی ہے اور تعمیرات کا کام شروع ہو چکا ہے۔ جبکہ شام کی سوا دو کروڑ کی آبادی میں سے ایک کروڑ پچیس لاکھ تو دربدر ہوکر آس پڑوس کے ممالک میں پناہ کے متلاشی ہیں، 54 لاکھ دوسرے ملکوں میں پناہ لے چکے ہیں۔ یوں شام تو ایک طرح سے پورا خالی کروا لیا ہے۔ ابو محمد جولانی کو جس کا اصل نام احمد الشارہ ہے شام کا سربراہ تو مان لیا ہے ، جولانی جو کہ القاعدہ کا جنگجو کمانڈر تھا امریکہ نے اس کے سر کی قیمت 20 ملین ڈالر مقرر کر رکھی تھی جو کہ اب نہ صرف معاف کر دی گئی ہے بلکہ اس کے گروپ کی سربراہی بھی تسلیم کر لی ہے۔ امریکہ کا یہ دوہرا معیار بڑا ننگا ہو کر سامنے آرہا ہے۔ اس کے ساتھ یہ بھی طے کر لیا ہے کہ وہ پورے پرانے شام پر دعوے دار نہیں بنے گا بلکہ اب شام کو جس طریقے سے ٹکڑے کیا جائے گا اس تقسیم کو تسلیم کرے گا اب شام کی مکمل بندربانٹ ہوگی اور کردوں، اسرائیل اور جولانی گروپوں میں بانٹا جائے گا۔ پھر جولانی اور دیگر گروپوں کی لڑائی میں امریکہ اور اسرائیل اپنا کردار ادا کرنا شروع کریں گے یوں یہ سارا خطہ اب کئی دہائیوں تک حالت جنگ میں رکھنے کے لئے نئے بندوبست میں لایا جا رہا ہے۔ حافظ الاسد جو کہ بشارالاسد کا والد تھا وہ بھی ڈکٹیٹر تو تھا اور شام کی صرف 10 فیصد اقلیت علوی سے تعلق رکھتا تھا لیکن وہ سیکولر خیالات کا تھا اور اس کے دور میں معاشی ترقی بھی ہو رہی تھی اور تعلیم بھی عام کی جارہی تھی جس کی وجہ سے اکثریتی سنی درگزر سے کام لے رہے تھے۔ اس کی وفات کے بعد بشارالاسد جب اقتدار پر براجمان ہوا تو اس نے اپنے باپ کی پالیسیوں کو یکسر تبدیل کردیا اور آئین کو بھی بدل ڈالا۔ بشاالاسد کو لانے کے لئے صدر کی 40 سال کی کم از کم عمر کو گھٹا کر 34 برس کر دیا گیا۔ اس نے آتے ہی اپنے باپ کی مفت تعلیم اور سستی خوراک کی پالیسی کو تبدیل کیا تو ملک میں بیروزگاری بڑھ گئی۔ پھر 2006 کی خشک سالی نے سونے پر سہاگے کا کام کیا اور لوگ سڑکوں پر نکل آئے۔ بے روزگاری اور مہنگائی آسمانیوں کو چھونے لگی۔ یہی زمانہ ہے جب القاعدہ نے اپنا کام بڑھانا شروع کردیا۔ 2010 میں تیونس میں ایک سبزی والے کی خودسوزی نے اردگرد کے کئی ممالک میں حکمرانوں کے خلاف آگ لگادی اور عرب سپرنگ شروع ہوا اور بالآخر تمام جگہوں پر یہی انتہا پسند ہی منظم قوت تھے اور اپنا کام بھی برھا رہے تھے۔ اس لئےیہ جہاں بھی بغاوت کامیاب ہوئی انہی کا گروپ یا ان کے ہمدرد اقتدار میں آئے یا امریکہ کی مدد سے لائے جاتے۔ اب شام کی باری آئی ہے تو شام کو ان ISIS اور القاعدہ نے اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے اور امریکہ اور اسرائیل اپنے مفادات کی خاطر ان کی سپورٹ کر رہے ہیں غزہ کی نسل کشی کی حمایت کر رہے ہیں۔ یمن پر بمباری کے حق میں ہیں گریٹر اسرائیل کی بھرپور مدد کی جارہی ہے۔ انہیں معلوم ہے کہ ان اسلامی جہادیوں کے حوالے سے کام کیا جائے پھر طویل مدت تک انہیں جوتیاں مارنے کا کام خود بخود نکلتا رہے گا اور اس سرمایہ داری کی معاشی لوٹ مار بھی جاری رہے گی اور ان کا اسلحہ بھی بکتا رہے گا ۔ اور ایران اور پھر پاکستان کو نشانہ بنانے کی تمام راہیں ہموار ہو چکی ہیں اب صرف وقت کا تعین باقی ہے۔ آنے والے موسم گرما تک ایران کا محاذ کھل جانے کے تبصرے موجود ہیں۔
یورپ سے سے مزید