تحریر: ابرار میر… لندن جتنی مرضی آئے ہم دلائل دیں، تاریخ بیان کریں، شاندار کارکردگی بیان کریں ، بھٹو خاندان کی قربانیوں کا زکر کریں مگر کند ذہن اور منتشر ذہن پر ان باتوں کا اثر نہیں ہوگا مگر جدوجہد اسی کا نام ہے کہ آپ آگے بڑھتے جائیں اور ایک مضبوط ترین نظرئیے پر ڈٹے رہیں خواہ اس میں خاردار اور کٹھن سفر کے دوران جان سے بھی ہاتھ دھونا پڑ جائے، بس آپ کا کام ہے ملک و قوم کی خاطر قائد عوام شہید ذوالفقار علی بھٹو کےعوامی فلسفہ کا پرچار کرتے رہیں کامیابی آپ کی ہی ہوگی۔ دوسالہ جلاوطنی کے بعد جب شہید محترمہ بینظیر بھٹو 10 اپریل 1986 کو لاہور پہنچی تو جیسے عوام کا لاہور کی سڑکوں پر سیلاب اُمڈ آیا ہو، عوام کو اپنے قائد عوام کی دوبارہ واپسی نظر آرہی تھی کہ جب شہید ذوالفقار علی بھٹو نے 29 نومبر 1967 میں ایک عوامی، جمہوری بلکہ انقلابی پارٹی کا اعلان کیا اور اسی قائد عوام نے پھر ٹوٹے پھوٹے پاکستان کو ایٹمی طاقت بنایا اور بات کی تو صرف اور صرف غریب، کسان، ہاری، محنت کش، طلبہ، خواتین اور پسے ہوئے طبقے کے حقوق کی کی۔ شہید بینظیر بھٹو نے اُس وقت بھی عوامی جم غفیر کو کسی تخریب کاری یا انتشار کی طرف راغب نہ کرایا اور نہ ہی اپنے عظیم باپ کا بدلہ لینے کی بات کی بلکہ جمہوریت کو ہی بہترین انتقام کہہ دیا کہ عوامی حقوق اور اقتدار سے آمریت کر ختم کیا جانا ہی سب سے بڑا انتقام ہے۔ شہید بی بی جب 2007 میں تشریف لائیں تو سوات میں پاکستان کا جھنڈا لہرانے کی بات ایسے کی کہ دہشت گردوں کے سامنے پاکستان کی ڈھال بن کر کھڑی ہوگئیں۔ وہ ایک ایسے عظیم قائد کی بیٹی تھیں کہ جس نے ہر مایوسی میں بھی سیاسی راستہ نکالنے کا ہنر اور شعور ثابت کیا اور اسی لئے بی بی شہید کو چاروں صوبوں کی زنجیر، بینظیر بینظیر کا اعزاز دیا اور یہ معرفت ہے آئین پاکستان کے ساتھ کے ساتھ جس آئین کو وفاقی بنایا گیا تاکہ صوبے اس آئین کی وجہ سے جُڑے رہیں اور پاکستان متحد رہے۔ محترمہ بینظیر بھٹو کو اپنے پرانے ساتھیوں نے دھوکے بھی دئیے اور آمر کے سامنے کھڑے رہنے کے بجائے لوٹے بن گئے۔ ایٹم بم قائد عوام کا تحفہ تھا تو شہید جمہوریت نے میزائل ٹیکنالوجی سے ملک کے دفاع کو مزید مضبوط کردیا۔ بنیادی بات اور تاریخی حقائق تو یہی ہیں کہ پاکستان کے جس بھی بڑے عوامی کارنامے کو دیکھیں گے تو اس میں سے صرف اور صرف قائد عوام اور شہید جمہوریت کے ہی نام سامنے آئینگے۔ قائد عوام نے ایک ایسا جمہوری اور عوامی نظریہ دیا کہ جسے بھٹوازم کے نام سے پکارا جاتا ہے اور اسی بینظیر عوامی نظریے کی پاسداری کی زمہ داری شہید رانی پر آن پڑی تھی اور اس نظرئیے کی پاسداری کا ایک ہی پختہ اور بنیادی تقاضہ یا اصول تھا کہ پاکستان کے عوام کی زندگیوں میں آسانی پیدا کی جائے اور ملک میں آئین قانون کا راج ہو چاہے اس میں جان بھی چلی جائے۔ شہید رانی نے عظیم قائد کے فلسفے سور نظرئیے کو اپنی قیمتی جان دیکر امر کردیا اور یہ کسی کسی کے نصیب میں آتا ہے۔ جہاں عوام یہ کہتی کہ زندہ ہے بھٹو زندہ ہے تو مخالفین تو تکلیف ہوتی ہے جب کہ جیالے تو زندہ ہے بی بی زندہ ہے کہتے ہیں تو پھر بھٹو اور بینظیر تاقیامت اس ملک کی عوام کیلئے زندہ ہیں اور مخالف اپنے زخم چاٹتا رہ جاتا ہے۔ مرد حُر آصف علی زرداری نے نامساعد حالات سے نہ صرف ملک و قوم کو نکالا بلکہ پیپلزپارٹی کو بھی بچا بچا کر اب نوجوان چیئرمین بلاول بھٹو اور خاتون اؤل محترمہ آصفہ بھٹو زرداری تک پہنچا دیا۔ اب آنے والا دور پھر بھٹو اور اس کے نظریے کا ہے اور بلاول بھٹو نہایت سیاسی بصیرت کے ساتھ قوم کو مسائل سے نکالنے کےلیے ہر جگہ موجود ہوتے ہیں۔ شہید رانی اپنے عظیم باپ کی نشانی تھی اور بلاول بھٹو اپنی بینظیر ماں کا بینظیر تحفہ ہے جو ہر حال میں نوجوان اور ملک و قوم کو ترقی کی راہ پر ڈالے گا اور کامیاب و کامران ہوگا۔