حقیقت پسندی یا حقائق نگاری کتنی اعلیٰ چیز ہے۔ بارہا جی چاہتا ہے کہ اس کو پوری طرح اپنا لیا جائے لیکن کیا کریں مجبوری ہے کہ سچ بھی اتنا ہی بولا جا سکتا ہے جتنا ہضم ہو جائے۔ اگر کسی کا ایجنڈا یہ ہو کہ وہ اپنی سوسائٹی کو اپنے آدرشوں یا اعلیٰ وچاروں کے مطابق ڈھالنا چاہتا ہے تو یہ تبھی ممکن ہے جب وہ کسی نہ کسی صورت اسٹیج پرموجود رہے۔ درویش نے ہیومن ہسٹری یا اپنی تاریخ کا جتنا بھی مطالعہ کیا ہے اسے جہاں اپنی محبوب شخصیات کے قتل یا شہادتوں کا ہمیشہ صدمہ رہا ہے وہیں وہ یہ غور بھی کرتا رہا ہے کہ وہ کامل سچائی سے تھوڑا انحراف کر لیتے، کچھ مصلحت یامصالحت سے کام لے لیتے تو کتنا اچھا ہوتا ۔ اگر آپ پر ایک راہ بند کی جا رہی ہے تو آپ فوراً متبادل راہ تلاشیں یا تراشیں۔ یہ سوچتے ہوئے کہ مصیبت کا پہاڑ آخر اک دن کٹ ہی جائے گا۔بلاشبہ زندگی میں چند مراحل ایسے بھی آ سکتے ہیں جہاں پیچھے مڑنا یا بزدلی دکھانا آپ کے مشن یا بڑے آدرشوں کو برباد کر سکتا ہے ایسے مواقع پر انسان یہی کہہ سکتا ہے کہ ’’یہ بازی عشق کی بازی ہے‘‘۔ یا یہ کہ ’’جان تو آنی جانی ہے‘‘۔
اس نظریہ عشق کے باوجود اپنی نئی نسلوں کے نام درویش کا یہ پیغام ہے کہ صرف شہادت کا شوق ہی مت پالیے کہ آزمائشوں یا امتحانوں سے بڑی ہستیوں نے بھی پناہ مانگی ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ گلے پڑا ڈھول بجانا پڑتا ہے لیکن آپ ہمیشہ زندگی سے پیار کیجیے زندہ رہنے کی تراکیب سوچیے حکم دیا گیا ہے کہ ’’خود کو ہلاکت میں مت ڈالو‘‘۔ ہمارے ایسے دوست بھی ہیں جو ہرپل یہ گاتے رہتے ہیں کہ ’’زندگی بے وفا ہے ایک دن ٹھکرائے گی، موت محبوب ہے اپنے ساتھ لے کر جائے گی‘‘۔ دوسرے لفظوں میں موت دکھوں سے چھٹکارا دلانے والی چیز ہے اور ہمارے صوفیا تو ہمیشہ سے موت کو خوش آمدید کہتے ہوئےاسے وصال کے معنوں میں لیتے رہے ہیں لیکن ہمارا ماڈریٹ فرقہ تصوف شاہکار الٰہی یعنی انسانیت سے اس قدر عشق و محبت رکھتا ہے کہ وہ اپنے پیاروں کے ساتھ رہنا چاہتا ہے، اس لئے وہ زندگی سے بھرپور پیار کرتے ہیں کہ وہ اپنے پیارے عزیزوں اور دوستوں کی طرح اپنے محبوب آدرشوں کے پھیلائو سے جدائی یا ہجر نہیں چاہتے ان کی نظروں میں موت ایک وحشت ہے جو اپنوں کے محبت بھرے لمس یا محفل خوباں سےآپ کو چھین کر لے جاتی ہے۔ اسی الجھن اور کشمکش میں ایک دن بابا جی اشفاق احمد سے کہا بابا جی لوگ کہتے ہیں مومن کبھی موت سے نہیں ڈرتا لیکن سچ تو یہ ہے کہ بندہ باوجود تمامتر درویشی کے اس سے ڈرتاہے تو کیا یہ سمجھا جائے کہ یہ مومن نہیں ہے۔ اس حوالے سے آپ کی جینوئن کیفیات معلوم کرنا مطلوب ہے۔ بابا جی بولے ’’کہنے والے جو مرضی کہتے رہیں لیکن ریحان میاں بات آپ کی سچ ہے میں جتنا بھی صوفی ہوں جو بھی ہوں، پوری سچائی یہی ہے کہ اندر سے چاہتا میں بھی ہوں کہ موت ذرا دور ہی رہے ذرا ہٹ کے رہے‘‘۔ ناچیز کو جس طرح اپنے عزیزوں کے کھو جانے کا دکھ بچپن سے لے کر اب تک ہر پل رہا ہے اور زندگی ان کی یادوں میں آنسو بہاتے گزری ہے اسی طرح تاریخی حوالوں سے اپنی محبوب ہستیوں کی شہادتوں یا بے وقت قتل کا صدمہ بھی ہمیشہ رہا ہے۔ مثال کے طور پر دنیاسے انسانی غلامی کا خاتمہ کرنے والے امریکی صدر ابراہام لنکن کو جس بے دردی سے قتل کیا گیا بارہا غور کیا کہ کاش اس رات وہ تھیٹر دیکھنے نہ جاتے لیکن ماحول جیسا بن چکا تھا جس نوع کی دھمکیاں آ رہی تھیں، یہ نہ ہوتا تو کوئی اور سانحہ یا وقوعہ ہو جاتا شاید ہونی نے ہو کر ہی رہنا تھا جس نوع کی خانہ جنگی ہورہی تھی کیا وہ ملکی و قومی سلامتی پر سمجھوتہ کر لیتے؟ اور کیوں کر لیتے؟ سچائی بڑی اچھی چیز ہے مگر سو فیصد سچائی خطرناک ہوتی ہے۔ خاکسار کے دو ہیروز اضحاق رابن اور صدر انور سادات تو ابھی کل کی بات ہیں جو حق و صداقت اور امن و سلامتی کے سفر میں اس قدر آگے بڑھے کہ اپنی ہی اقوام کی متشدد سوچ (گولیوں) کا نشانہ بن گئے۔ انہیں کوئی بیچ کی راہ نکالنی چاہیے تھی پھر سوچتا ہوں کہ کیسے نکالتے؟ کیا سچائی کے مقدس مشن کو چھوڑ دیتے؟ کچھ ایسی ہی کیفیات محترمہ بے نظیر بھٹو کے حوالے سے ہیں جو اپنے قومی مقاصد یااعلیٰ آدرشوں پر قربان ہوگئیں لیکن خاکسار کا خیال ہے کہ ان کو اپنی سکیورٹی کے حوالے سے احتیاط کرنی چاہیے تھی جس میں کافی حد تک لاپروائی سے کام لیا گیا اور وہ دہشت گردی کی بھینٹ چڑھ گئیں۔ ایک دن درویش کی ایک ممتاز صحافی دوست کے ساتھ دو وزرائے اعظم بھٹو اور نواز شریف کے حوالے سے بحث ہوئی جو ایک کے جوش و جنوں کو بہادری اور دوسرے کی ہوش و خردمندی کو بزدلی گردان رہے تھے۔ عرض کی جس طرح جوش اور حماقت میں زیادہ فاصلہ نہیں ہوتا، اسی طرح آپ دانشمندی کو بزدلی کا نام دے سکتے ہیں لیکن سچائی کے ساتھ حکمت و تدبر یہی ہے کہ انسان اپنے آدرشوں کی خاطر اور اپنے پیاروں کی خاطر موت پر زندگی کو ترجیح دے۔ شہادت حاصل کرنا ذرا مشکل کام نہیں ہے انسان کو معمولی غلطی پر آئوٹ ہوتے دیر نہیں لگتی لیکن حکمت عملی کے ساتھ کریز پر رہیں گے تو قوم کیلئے سکور کر سکیں گے یہ مشکل اور صبر آزما اننگز کہلاتی ہے۔