(گزشتہ سے پیوستہ )
میں جوانی میں آوارہ گرد ہوتا تھا صبح گھرسے نکلتا اور رات کو لوٹتا ایک ملک سے دوسرے ملک کا سفر مزے سے طے کرتا۔ چنانچہ میں نے اپنے یورپ کے سفرنامے کا نام بھی ’’شوق آوارگی‘‘ رکھا۔ سوکھے پتوں کی مانند تھا تادم شوق آوار گی اب میں ’’میری کہانی‘‘ لکھنے کے دوران ایک بار پھر آوارہ گرد ہو گیا ہوں ،ایک منظر سے دوسرا منظر دکھانے نکل کھڑا ہوتا ہوں کچھ دنوں بعد دوبارہ پہلے منظر کی طرف لوٹتا ہوں اور اس کے جو عکس دکھا نہیں سکا تھا وہ دکھانے کی کوشش کرتا ہوں۔ابھی ایک روز پہلے اور اس سے بھی پہلے اپنے نوائے وقت کے کولیگز کا ذکر کرتا رہا اب ایک دفعہ پھر یہی کام کرنے لگا تھا مگر پھر یاد آیا کہ یہ ذکر تو چلتا رہے گا اس سےپہلے لاہور سے آپ کی ملاقات کیوں نہ کرائوں جہاں ایسے لوگ بستے تھے کہ اب دیکھنے کو جن کو آنکھیں ترستی ہیں ۔ بس اس سے پہلے صرف ایک بدصورتی کاعکس مال روڈ پر شام ہوتے ہی ایک کھلی چھت والی بہت مہنگی کار میں ایک بہت بدشکل شخص آہستہ روی کا مظاہرہ کرتا ہوا شکار کی تلاش میں نکلتا تھا۔ مال روڈ پر ٹریفک توہوتا نہیں تھا چنانچہ اسے جہاں کوئی تنومند نوجوان نظر آتا یہ کار اس کے قریب لے جا کر کھڑی کر دیتا اور اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر اس کا ردعمل نوٹ کرتا ۔راہگیروں میں سے اگر کسی محنت کش کی دیہاڑی نہ لگی ہوتی اور ایسی مخلوق سے اس کا پہلے بھی پالا پڑا ہوتا تو وہ یہ نظریں پہچان کر اس کے برابر کی سیٹ پر بیٹھ جاتا اور واپس آتا تو دو تین دن کے لئے اپنے بچوں کی روزی کا بندوبست کرکے لوٹتا میں نے اسے مال روڈ کی سیر کے دوران کئی مرتبہ دیکھا تھا ایک دن اس نے اپنی گاڑی میرے قریب لاکر بھی کھڑی کر دی تھی مگر میری آنکھوں میں پائی گئی شدید کراہت کا سامنا نہ کرسکنے کی وجہ سے آگے چل پڑا۔
دفعہ کریں ایسے منحوس کردار کو جسے اللہ جانے اس شہر نے کیسے قبول کر لیا تھا جس میں اردو اور پنجابی کے نامور شاعر اور اسکالرز رہتے تھے اور ہیں۔ فیض احمد فیض، احمد ندیم قاسمی، منیر نیازی، انتظار حسین، عبداللہ حسین، احمد مشتاق،احسان دانش، شہرت بخاری ،مولانا چراغ حسن حسرت، عبدالمجید سالک، احمد راہی ، سیف الدین سیف، ظہیر کاشمیری ، ناصر کاظمی، نجم حسین سید، مشتاق صوفی، محمد احسن خان ، فقیر محمد فقیر، اختر حسین جعفری، شریف کنجاہی ،ڈاکٹر شہباز ملک، قتیل شفائی، منو بھائی، شفقت تنویر مرزا، ڈاکٹر سید عبداللہ ، جمیل پال اور بہت سوںکے علاوہ ہمارے قومی شاعر حفیظ جالندھری بھی رہتے تھے۔ ان میں سے فقط چار پانچ حیات ہیں مگر ان کی چاپ ہر لمحہ سنائی دیتی ہے جو ہمارے درمیان ہیں یا وہاں ہیں جو دنیا بھر کے افسانوں کی آخری قیام گاہ ہے۔ احمد ندیم قاسمی مجلس ترقی ادب کے شاہ نشین تھے اور وہاں سینئرز اور جونیئرز دونوں کا کھلے بازئوں سے خیر مقدم کیا جاتا تھا ۔قاسمی صاحب کے دفتر میں محمد خالد اختر، سید محمد کاظم، رشید ملک، علی عباس جلالپوری اور مختلف شعبوں کے مختلف زعماء آتے رہتے تھے۔ نوجوانوں میں امجد اسلام امجد، خالد احمد، اعجاز رضوی، آغا نثار، نجیب احمد اور منصورہ احمد بھی اکثر وہاں ہوتی جسے قاسمی صاحب نے اپنی بیٹی بنایا ہوا تھا قاسمی صاحب خالد احمد سے بہت پیار کرتے اور اس سے چھیڑ چھاڑ کرتے رہتے تھے ایک دن ہم سب بیٹھے تھے کہ قاسمی صاحب نے خالد احمد کو مخاطب کیا اور کہا خالد تمہاری طبیعت میں اتنی جلد بازی ہے کہ اگر میرا شعر ؎
کون کہتا ہے کہ موت آئی تو مر جائوں گا
میں تو دریا ہوں سمندر میں اتر جائوں گا
تمہارے ہتھے چڑھا ہوتا تو تم نے اس طرح کہنا تھا
کون کہتا ہے کہ مر جائوں گا
میں سمندر میں اتر جائوں گا
قاسمی صاحب کے دفتر میں ایک صاحب آیا کرتے تھے ان کا نام الف المحراث تھا جس کا مطلب صرف وہ جانتے تھے کہ بقول ان کے اردو زبان پاک وہند میں غلط لکھی اور بولی جا رہی ہے اور اب وہ اصلی اردو کا احیا کر رہے ہیں مثلاً ان کا خیال تھا کہ بلی دودھ پی رہی ہے بالکل غلط ہے ۔صحیح اردو میں یہ بات یوں کی جائے گی کہ بلی دودھ چاٹ رہی ہےالف المحراث صاحب درویش ٹائپ شخص تھے ان کا لباس بھی بس جسم کی پردہ پوشی کرتا تھا قمیض بھی پہنی ہوتی اور پاجامہ بھی پیچھے سے پھٹا ہوتا ۔
احمد ندیم قاسمی صاحب ایسے سنجیدہ لکھنے والے بہت ہنس مکھ تھے، علمی اور ادبی کاموں سے فارغ ہوتے تو ہم نوجوانوں کے ساتھ وہ بھی نوجوان بن جاتے ۔ رمضان کا مہینہ تھا قاسمی صاحب اپنی عمر کے اسی برس گزار چکے تھے ایک دن دروازہ بند کرکے باہر نائب قاصد کو بٹھا دیا کہ کسی کو اندر نہ آنے دے اور چائے پینے میں مشغول ہوئے اتنے میں کسی نے پائوں کی ٹھوکر سے دروازہ کھولا ایک بزرگ لمبی داڑھی سر پر عمامہ ہاتھ میں چھڑی اندر وارد ہوگئے اور آتے ہی قاسمی صاحب پر چڑھائی کر دی ۔آپ اتنے بڑے شاعر ہیں، افسانہ نگار ہیں، پیر زادے ہیں اور ماہ رمضان کے مقدس مہینے میں چائے پی رہے ہیں ۔ آپ کو شرم آنی چاہئے چپراسی کو بلائیں اور اسے کہیں کہ چائے کا ایک کپ اور لائےیہ ان کے کوئی پرانے دوست تھے۔خالد احمد جہاں بہت عمدہ شاعر تھا وہاں بہت بڑا جملے باز بھی تھا ایک دن قتیل شفائی نے قاسمی صاحب سے خالد کی شکایت کی انہیں اس کا ایک جملہ ناگوار گزرا تھا۔ قاسمی صاحب نے خالد سے کہا قتیل صاحب کے پاس جائو اور ان سے معافی مانگو۔ خالد قتیل صاحب کے پاس گیا اور ان کے پائوں میں بیٹھ گیاپھر ان کے پائوں پکڑ کر نہایت لجاجت سے کہا قتیل صاحب معاف کر دیں۔میں آپ کا ’’کتورا‘‘ ہوں اس پر قتیل صاحب نے قہقہہ لگایا اور کہا تم شہر کے سب سے بڑے خبیث ہو بس اب دفع ہو جائو ۔اب اگر قتیل کا ذکر آیا ہے تو ایک واقعہ خود میرے حوالے سے بھی سن لیں۔ان کے گھر اکثر نائو نوش کی محفلیں جمتیں ،مجھے جب کبھی پبلک میں ملتے کہتے قاسمی صاحب آج ولایتی منگوائی ہے شام کو میری طرف ضرور آئیں ۔میں ہر دفعہ کہتا کہ قتیل صاحب بہت شکریہ میں شراب نہیں پیتا۔خود انہیں بھی اس کا علم تھا مگر جانے وہ ایسا کیوں کرتے ۔ایک دن انہوں نے اسی طرح بہت سے لوگوں کے درمیان بیٹھے ہوئے کہا قاسمی صاحب آج ضرور میرے گھر آئیں۔بہت اعلیٰ نسل کی شراب ہے میں روز روز کی اس بلاوجہ بدنامی سے تنگ آ چکا تھا ۔میں نے تلخ لہجے میں کہا قتیل صاحب میں آپ کو بارہا بتا چکا ہوں کہ مجھے شراب نوشی کا کوئی شوق نہیں جس چیز کا شوق ہے وہ کسی دن بتائوں گا اگر آپ مہیا کرسکے تو بہت ممنون ہوں گا ۔اس کے بعد انہوں نے زندگی بھر مجھے اپنے گھر آنے کی ’’صلاح‘‘ نہیں ماری۔ (جاری ہے)