(گزشتہ سے پیوستہ )
اکبر بادشاہ اور شاہ جہاں کے دور میں لاہور کا رنگ محل نیل کی سب سے بڑی منڈی تھا۔ یہ نیل کپڑوں کو چمک دینے کےلئے استعمال بھی ہوتا تھا آپ کے بچپن میں گھر کی بڑی بوڑھی خواتین کپڑوں کو دھونے کے بعد رابن نیل میں بھی دھویا کرتی تھیںجس سے کپڑوں میں چمک آ جاتی تھی آج کا رنگ محل اور سو برس قبل کے رنگ محل میں زمین آسمان کا فرق آ چکا ہے ۔رنگ محل میں جین (موٹا کپڑا) کو نیلا رنگ دینے کا بہت کام ہوا کرتا تھا کوئی آج کا لاہوریا یقین کرے گا کہ ڈبل ڈیکر بس بھاٹی گیٹ سے لوہاری ایک مینار والی مسجد سے ہوتی ہوئی رنگ محل جایا کرتی تھی۔ آج عام بس یہاں سے نہیں گزر سکتی کبھی ڈبل ڈیکر اس علاقے سے ہوتی ہوئی اخبار مارکیٹ کے قریب سے گزر کر ضلع کچہری تک جایا کرتی تھی۔ یہ لاہور تھا آپ سو برس قبل کے اخبارات اٹھا کر دیکھ لیں آپ کو کہیں تجاوزات کا نام ونشان نہیں ملے گا آج سے صرف بیس برس قبل ایمپریس روڈ بڑی صاف ستھری تھی آج وہاں لاہور کا دوسرا بڑا لنڈا بازار بن چکا ہے۔ نولکھا چرچ، کتھیڈرل چرچ ایمپریس روڈ اور اسکول کے قریب آپ جانے کا تصور نہیں کر سکتے۔ اسکول کے باہر تک لنڈا بازار کی ریڑھیاں اور سامان آ چکا ہے۔ ایک دن یہ سڑک بھی ایمپریس لنڈا بازار بن جائے گی۔ ایمپریس روڈ بڑی خوبصورت سڑک تھی یہیں پر ریلوے ہیڈ کوارٹر اور ایک مسلم حکمران کا مقبرہ بھی ہے جو اب چرچ کے احاطے میں آ چکا ہے۔ اس سڑک پر ریڈیو پاکستان کی عمارت ہے کبھی یہاں میاں نواز شریف، میاں شہباز شریف اور ان کے والد میاں محمد شریف کا دفتر تھا۔ ہم میاں محمد شریف کو ان کے اس دفتر میں کئی مرتبہ ملے بھی تھے۔ دفتر کا دروازہ کھولتے تو سامنے میاں محمد شریف بڑی سی میز پر بیٹھے ہوا کرتے تھے ان دنوں شہباز شریف کے پاس کلیجی رنگ کی گیلنٹ کار ہوا کرتی تھی اور نواز شریف کبھی گورنمنٹ کالج اپنی کالے رنگ کی مورس کار پر بھی آیا کرتے تھے۔ ان کے پاس ویسپا اسکوٹر بھی ہوا کرتا تھا خیر بات کو آگے بڑھاتے ہیں۔ اس مرتبہ ہم ایک ایسے اسکول میں چلے گئے جہاں پر ہم نے کبھی اپنا میٹرک کا امتحان بھی دیا تھا اور کئی برس بعد یہاں گئے تھے اس اسکول میں آج بھی 1947ء کے مہاجر بیٹھے ہیں ویسے تو اسلامیہ کالج سول لائنز (ڈی اے وی اسکول و کالج) کی عمارت اور ہوسٹل میں بھی 1947ء کے مہاجر بیٹھے ہیں۔ اب یہاں پر کئی وکیلوں نے اپنے دفاتر بنا لئے ہیں حیرت ہے جب یہ عمارت مہاجروں کو عارضی طور پر رہائش رکھنے کے لئے دی گئی تھی تو آج اس میں دکانیں اور دفاتر کس طرح قائم ہو گئے ہیں۔ لاہور کالج میں سرگنگا رام اسکول میں بھی مہاجر آئے تھے مگر صرف چند ماہ میں ان مہاجروں سے یہ اسکول خالی کرا لیا گیا تھا اور یہاں پر لاہور کالج کی کلاسیں شروع ہو گئی تھیں۔ دوسری جانب مسلم ہائی اسکول نمبر 2میں آج بھی 1947ء کے مہاجر بیٹھے ہوئے ہیں حیرت کی بات یہ ہے کہ کسی بھی حکومت نے 1947ء کے ان مہاجروں کو کسی اور جگہ آباد کرنے کا نہیں سوچا۔ یہ 24خاندان ہیں جو 1947ء میں بھارت کے مختلف علاقوں سے ہجرت کر کے آئے تھے لاہور کے کئی مہاجر خاندان مختلف اسکولوں اور کالجوں کی عمارات میں کچھ عرصہ کے لئے ٹھہرے تھےاور پھر اس وقت کی حکومت نے انہیں مختلف جگہوں پر آباد کر دیا تھا۔ لاہور میں اب دو تعلیمی ادارے ایسے رہ گئے ہیں جہاں پر اب تک مہاجر بیٹھے ہوئے ہیں۔ ایک تو مسلم ہائی اسکول نمبر 2اور دوسرا اسلامیہ کالج سول لائنز کے ہوسٹلوں میں مہاجرین اب تک بیٹھے ہوئے ہیں۔ کیا عجیب صورتحال ہے کہ ایک طرف اسکول چل رہا ہے تو دوسری طرف مہاجرین کے خاندان اور انکے رشتہ دار آ جا رہے ہیں جس کی وجہ سے اسکول کا ماحول ایک عجیب صورت اختیار کر چکا ہے۔
قیام پاکستان سے قبل اس اسکول کو ڈی اے وی دیونند اینگلیو ویدک اسکول کہا جاتا تھا آزادی کے وقت اس اسکول کو بند کر دیا گیا تھا۔ 1948ء میں محکمہ تعلیم نے اس اسکول کو دوبارہ شروع کیا تھا۔ یہ بڑا تاریخ اسکول ہے یہاں پر تحریک آزادی کے نامور کارکن بھگت سنگھ بھی زیر تعلیم رہے۔ اس کے علاوہ کئی فوجی افسر اور بیوروکریٹس بھی اس اسکول کے فارغ التحصیل ہیں اس اسکول کی عمارت کا طرز تعمیر دیکھنے سے تعلق رکھتا ہے۔ پرانے انداز کی چھت بغیر لینٹر والی ہے دروازے اور کھڑکیوں کی لکڑی آج بھی دیمک سے محفوظ ہے قدیم طرز تعمیر کی یہ ایک خوبصورت عمارت ہے۔ دکھ اور افسوس کی بات یہ ہے کہ لاہور کی پرائم لوکیشن پر یہ تاریخی اسکول 1947ء سے نظرانداز ہوتا چلا آ رہا ہے۔ حالانکہ اس کے قریب گورنمنٹ کالج، اسلامیہ کالج سول لائنز، گورنمنٹ سنٹرل ماڈل اسکول لوئر مال اور ریٹی گن ہے اور ان تمام تعلیمی اداروں کو حکومت نگہداشت کے لئے فنڈز اور گرانٹس دیتی رہتی ہے مگر اس اسکول کا کوئی پرسان حال نہیں اگرچہ موجودہ ہیڈماسٹر سعید قریشی اور ان کے اسٹاف کی کوششوں سے اب یہاں پر اسٹوڈنٹس کی تعداد 563ہو چکی ہے اور پہلی مرتبہ پہلی جماعت سے بھی داخلہ شروع کر دیا گیا ہے پہلے یہاں پر کلاس ششم سے داخلہ ہوتا تھا۔
قیام پاکستان سے قبل اس اسکول کی عمارت دیکھنے سے تعلق رکھتی تھی۔ آج سے پچاس برس قبل تک بھی اسکول کی عمارت بہت اچھی حالت میں تھی اب اس کے کارپورچ کی چھت بھی گرچکی ہے ان چوبیس خاندانوں نے اسکول کے اندر کئی جگہوں پر تجاوزات کھڑی کر لی ہیں۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ یہ خاندان اسکول کی عمارت کے اندر دیواریں تعمیر کرتے رہے اور توڑ پھوڑ کرتے رہے لیکن کسی اتھارٹی نے ان سے نہیں پوچھا۔ اسکول کی چھت پر جانے کے لئے دو گنبد نما سیڑھیاں ہیں۔ ہم بڑی مشکل سے ان سیڑھیوں کے ذریعے اوپر چھت پر گئے وہاں جاکر بڑا افسوس ہوا کہ کئی خاندانوں نے جس برے انداز میں عمارت کو تباہ وبرباد کیا ہوا تھا وہ بیان سے باہر ہے۔ پچھلے 78برس سے یہ لوگ یہاں بیٹھے ہیں ان کو یہ احساس تک نہیں ہوا کہ کم از کم اسکول کی تاریخی عمارت کو خراب نہ کرتے اور اس کو اصل حالت ہی میں رہنے دیتے جب یہاں پر ہندوئوں کا اسکول تھا تو اسکول کے اوپر والی منزل پر بھی کلاسیں ہوتی تھیںا ب تو صرف نیچے ہوتی ہیں اوپر والی منزل پر مہاجرین نے قبضہ کر رکھا ہے۔ ایک طرف حکومت تعلیم عام کرنے کی بات کرتی ہے معیار تعلیم اور اسکولوں کے معیار کو بہتر بنانے پر زور دیتی ہے۔ دوسری طرف لاہور کے دو تعلیمی اداروں میں 1947ء سے مہاجر بیٹھے ہوئے ہیں۔ (جاری ہے)