تھنک ٹینک ملکی ترقی اور معاشی خوشحالی میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ یہ معاشی تھنک ٹینک پروفیشنل ریسرچرز اور معیشت دانوں پر مشتمل ہوتے ہیں جو ریسرچ کی بنیاد پر ملکی معاشی پالیسیوں کیلئے اہم تجاویز حکومت کو پیش کرتے ہیں۔ گزشتہ دنوں کراچی میں فیڈریشن آف پاکستان چیمبرز آف کامرس اینڈ انڈسٹریز میں نیشنل اکنامک تھنک ٹینک (NETT) قائم کیا گیا جس میں اہم کردار سابق وفاقی وزیر تجارت گوہر اعجاز اور یونائیٹڈ بزنس گروپ کے پیٹرن انچیف ایس ایم تنویر ادا کررہے ہیں۔ سابق وزیراعظم انوار الحق کاکڑ تھنک ٹینک کے صدر، سابق وزیر خزانہ ڈاکٹر شمشاد اختر CEO اور ممتاز صنعتکار اور بزنس مین بشیر جان محمد چیئرمین نامزد کئے گئے ہیں۔ تھنک ٹینک میں مختلف شعبوں کے 40 ماہرین ’’پاکستان ویژن 2030‘‘ پر عملدرآمد کرنے کیلئے تجاویز دیں گے جس میں 10 فیصد سالانہ گروتھ سے ملکی ایکسپورٹ کو 100 ارب ڈالر تک لے جانے کا ہدف ہے۔ اس سلسلے میں گزشتہ دنوں تھنک ٹینک کے چیئرمین بشیر جان محمد نے کراچی میں اپنی رہائش گاہ پر ایک عشائیہ دیا جس میں میرے علاوہ پاکستان کے ممتاز بزنس مین، ایکسپورٹرز اور سرمایہ کاروں کو مدعو کیا گیا اور تھنک ٹینک کی تفصیلات شیئر کی گئیں۔ گوہر اعجاز نے بتایا کہ ہماری معاشی ترقی میں سب سے بڑی رکاوٹ پالیسیوں کا عدم تسلسل ہے جس کی وجہ سے ہماری ایکسپورٹ گزشتہ 11 سال میں 23 ارب ڈالر سے 27 ارب ڈالر تک بمشکل پہنچ سکی ہے۔ اگر ہم ایکسپورٹ میں 10 فیصد سالانہ گروتھ کے ہدف کو لے کر چلتے تو آج ہماری ایکسپورٹ کم از کم 60 ارب ڈالر ہوتی۔ سابق وزیراعظم انوار کاکڑ اور گوہر اعجاز نے ایکسپورٹ بڑھانے کیلئے اپنے چین اور سعودی عرب کے دوروں کی تفصیلات شیئر کیں۔ ایس ایم تنویر نے IPPs کے 5 معاہدوں کی منسوخی اور 18 معاہدوں کی Take & Pay کی بنیاد پر منتقلی سے مستقبل میں بجلی کی قیمتوں میں کمی کی توقع ظاہر کی۔اس سلسلے میں 13دسمبر کو قومی اسمبلی اجلاس میں میرے سوال پر بتایا گیا کہ صرف 5 آئی پی پیز کی منسوخی سے حکومت کو باقی دورانئے پر 411 ارب روپے کی بچت ہوگی۔ سابق وزیر خزانہ اور سابق گورنر اسٹیٹ بینک ڈاکٹر شمشاد اختر نے کہا کہ تھنک ٹینک کا مشن قومی ایشوز پر آزاد پبلک پرائیویٹ پارٹنر شپ اور سرمایہ کاری دوست پالیسیاں تجویز کرنا ہوگا جبکہ تھنک ٹینک کے چیئرمین بشیر جان محمد نے فیڈریشن میں قائم تھنک ٹینک جو پروفیشنلز اور ریسرچرز پر مشتمل ہوگا، کو وقت کی اہم ضرورت قرار دیا۔ اس موقع پر میں نے تھنک ٹینک کے آرگنائزرز کو تجویز دی کہ میں مختلف سیاسی جماعتوں کے پارلیمانی گروپ کے اراکین اسمبلی کو فیڈریشن کے تھنک ٹینک سے منسلک کرانے کیلئے تیار ہوں جو پارلیمنٹ میں قانون سازی اور حکومت سے اس پر عملدرآمد کرانے میں مدد دے گا۔
اس وقت ملک میں فیڈریشن آف پاکستان (FPCCI)، اوورسیز انویسٹر چیمبر آف کامرس (OICCI)، امریکن بزنس کونسل (ABC) پرائیویٹ سیکٹر کے وہ بڑے ادارے ہیں جوپرائیویٹ سیکٹر کی نمائندگی کررہے ہیں۔ FPCCI ملک کی ایپکس باڈی ہے جس کے 283 ٹریڈ باڈیز اور چیمبرز ممبرز ہیں جس میں 72 چیمبرز، 159 ایسوسی ایشن، 29 وومین چیمبرز، 16 اسمال ٹریڈرز شامل ہیں اور یہ پاکستان کی بزنس کمیونٹی کی نمائندہ باڈی اور بزنس کمیونٹی اور حکومت کے مابین ایک پل کا کردار ادا کرتا ہے۔ اس کے علاوہ OICCI جس میں 30 مختلف ممالک کے بیرونی سرمایہ کاروں کی 200 سے زائد کمپنیاں شامل ہیں جس میں 51کمپنیاں پاکستان اسٹاک ایکسچینج پر لسٹ ہیں اور بہترین منافع کمارہی ہیں۔ یہ کمپنیاں مجموعی ٹیکس کا ایک تہائی ٹیکس ادا کرتی ہیں۔تیسرے نمبر پر امریکن بزنس کونسل (ABC) ہے جو پاکستان میں امریکی کمپنیوں کی نمائندگی کرتی ہے۔ اگر آپ FPCCIکا فیڈریشن آف انڈین چیمبرز آف کامرس (FICCI) سے موازنہ کریں تو FICCI کے ادارے FRACمیں سینکڑوں پی ایچ ڈیز اور ریسرچرز، اہم سیکٹرز پر ریسرچ اینڈ ڈویلپمنٹ میں مصروف ہیں اور علاقائی اور گلوبل ریسرچ سے حکومت اور FICCI کو اہم تجاویز پیش کررہے ہیں اور حکومت کی ہر پالیسی سازی میں FICCI کا اہم کردار ہوتا ہے جبکہ پاکستان میں گزشتہ چند برسوں تک فیڈریشن کے R&D ڈپارٹمنٹ میں پی ایچ ڈیز اور ریسرچرز نہ ہونے کے برابر تھے لیکن اب قومی معاشی تھنک ٹینک کے قیام کے بعد امید کی جاتی ہے کہ یہ اہم تھنک ٹینک حکومت کو آنے والے وقت کے تقاضوں پر تجاویز پیش کرنے کی پوزیشن میں ہوگا جس میں گردشی قرضے، IPPs، IMFمعاہدہ، ٹیکس اصلاحات، ملکی ایکسپورٹس، خسارے میں چلنے والے حکومتی اداروں کی نجکاری، اسمگلنگ کی روک تھام، زرعی، رئیل اسٹیٹ، تعمیراتی اور مائننگ شعبے میں اصلاحات، دیوالیہ قوانین،نئے سرمایہ کاری اور آزاد تجارتی معاہدے اور سابقہ FTAs پر نظرثانی، ماحولیاتی تبدیلی، اسپیشل اکنامک زون پالیسی اور بیرونی سرمایہ کاری جیسے وہ اہم مسائل ہیں جن کے حل کیلئے FPCCI کے قومی معاشی تھنک ٹینک کو ریسرچ کی بنیاد پر عملی تجاویز اور سفارشات پیش کرنا ہوںگی ۔امریکن بزنس کونسل کے سالانہ سروے میں 71فیصد کمپنیوں نے پاکستان کے امیج اور بزنس کلائمنٹ پر تشویش کا اظہار کیا ہے جبکہ 79فیصد کمپنیوں نے ملک کو درپیش موجودہ چیلنجز کو نئی سرمایہ کاری کے راستے میں رکاوٹ قرار دیا ہے۔ قومی معاشی تھنک ٹینک کو میری تجویز ہے کہ وہ تمام سیاسی جماعتوں سے رابطہ کرکے ’’میثاق معیشت‘‘ پر اتفاق کرے تاکہ مستقبل میں ملکی معاشی پالیسیوں کا تسلسل برقرار رہے جو ملک میں نئی سرمایہ کاری کے فروغ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے ۔