• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پے در پے نئے بحرانوں کا سامناکرنے کے حوالے سے ہمارے ملک پر منیر نیازی کا یہ شعر پوری طرح صادق آتا ہے کہ

اک اور دریا کا سامنا تھا منیرؔ مجھ کو

میں ایک دریا کے پار اترا تو میں نے دیکھا

ہمارے ملک کا انتہائی اہم جغرافیائی اور سیاسی محّلِ وقوع جسے اصولی طور پر ہمارے لیے باعثِ رحمت ہونا چاہیے تھا۔ ایک ڈراونے خواب کی طرح ہمارے ماضی پر چھایا ہوا ہے جس کے سائے مستقبل پر بھی پڑتے دکھائی دے رہے ہیں۔ وہ ملک جس کے ایک طرف دنیا کی سب سے بڑی آبادی پر مشتمل ایک ابھرتی ہوئی نئی سپر پاور چین ہو اور دوسری طرف دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت بھارت، ایک کونے میں دنیا کی سابقہ دوسری سپر پاور سوویت یونین دوسرے کونے میں تیل کی دولت سے مالا مال خلیجی ممالک اور سنٹرل ایشیاء کے ممالک واقع ہوں اور وہ ملک ان کے سنگم پر واقع ہو۔ اسکی اہمیت کا اندازہ اس حقیقت سے لگایا جا سکتا ہے کہ دوسری جنگِ عظیم کے بعد جس سیاسی اورفوجی تبدیلی نے پوری دنیا کی شکل بدل کر رکھ دی ہے وہ ہے دنیا کی دوسری سوپر پاور یعنی سابقہ سوویت یونین کا زوال اور تقسیم جبکہ سوویت یونین کی سیاسی اور فوجی شکست کا میدانِ جنگ افغانستان کے ساتھ ساتھ ہماری مملکتِ خداداد پاکستان بھی بنی ۔ صرف یہی نہیں سوویت یونین کے بعد امریکہ اور طالبان کے درمیان ہونے والی طویل جنگ کی ساری خونریزی کا خمیازہ بھی ہمیں ہی بھگتنا پڑا۔ گزشتہ نصف صدی سے پاکستان وہ واحد ملک ہے جو بڑی طاقتوں کے سامراجی مقاصد کی جنگ میں اس بری طرح کُچلا گیا ہے کہ وہ اپنے خطّے کا پسماندہ ترین ملک بن گیا ہے ۔ قیامِ پاکستان کے مخالفین تو اب کھل کر یہ الزام تراشی کر رہے ہیں کہ پاکستان کا وجود محض اس لیے عمل میں لایا گیا تھا کہ سابقہ سوویت یونین کے خلاف اسے میدان ِ جنگ کے طور پر استعمال کیا جائے۔ چونکہ پاکستان کومغربی سامراج خصوصاً امریکہ نے اسے اپنی فرنٹ لائن سٹیٹ کے طور پر بے انتہا فوجی امداد دی، اس لیے امریکی ایما پر پاکستان میں فوجی ڈکٹیٹروں کی آبیاری اور جمہوری قوتوں کی بیخ کنی کی گئی۔ کیونکہ ڈکٹیٹر محض اپنے اقتدار کیلئے امریکی حمائت میں کسی حد تک بھی جانے کیلئے تیار رہے۔ اس سارے عمل میں ملک سیاسی عدم استحکام اور جمہوری عمل کے ذریعے پیدا ہونے والے سیاسی رہنمائوں کے فقدان کا شکار ہو گیا۔ آج یہ عالم ہے کہ پاکستان میں 2008کے بعد جمہوری حکومت کی پہلی مرتبہ اپنی ٹرم پوری کرنے اور پیپلز پارٹی کے اپنے تحفظات کے باوجود اپنی شکست کو تسلیم کرنے اور پر امن طریقے سے اقتدار کی منتقلی نے سیاست دانوں کیلئے جو گنجائش (Space)پیدا کی تھی وہ بھی ختم ہوتی جا رہی ہے۔ جبکہ آنے والے وقت میں ہمارے خطّے میں جو نئی ڈرامائی تبدیلیاں متوقع ہیں۔ ان سے نمٹنے کیلئے مکمل طور پر سیاسی خلاء دکھائی دیتا ہے۔ ہم ابھی تک افغان جنگ کی تباہی سے باہر نہیں نکل سکے ۔ کیونکہ ہم نے اپنی غیر دانشمندانہ پالیسیوں کے ذریعے ہر اس طاقت سے دھوکے کھائے ہیں جس کی خاطر ہم نے اپنی سرزمین کو میدانِ جنگ بنائے رکھا چاہے وہ امریکہ ہو یا طالبان ۔ہم نے آنکھیں بند کرکے انکی خاطر اپنے قومی مفادات کو قربان کردیا۔ لیکن ہمارے خون پر پلنے والے ہمارے مغربی سرحدوں کے ہمارے خود ساختہ محافظ طالبان نے ہماری مغربی سرحدوں کو ہمارے ہی خون سے تر بتر کر دیا ہے۔ دوسری طرف ہمیں ہر طرح سے تباہ و برباد کرنے کے بعد ہمارے سابق آقا نے ہمارے آخری اثاثے یعنی نیوکلیئر پروگرام کے بارے میں اپنے گھنائونے عزائم کا اظہار بھی کر دیاہے۔ اس قوم کو ذوالفقار علی بھٹو شہید کا شکر گزار ہو نا چاہیے جسکی مستقبل بینی اور سیاسی بصیرت نے پاکستان کے نیوکلیئرپروگرام کی بنیاد رکھی ۔ جسکی وجہ سے ابھی تک پاکستان ،عراق ، شام اور دیگر اسلامی ممالک کی طرح خانہ جنگی کا شکار ہو نے سے بچا ہوا ہے ۔ لیکن کیا ہماری آئندہ قیادت آنے والے دنوں میں اپنی سالمیّت اور جوہری اثاثوں کی حفاظت کر سکے گی؟ امریکہ کے نو منتخب صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنی انتخابی مہم میں جس مین ایجنڈے کا ذکر کیا وہ ہے چین کے بڑھتے ہوئے اثرورسوخ کو روکنا ۔ اور اس کا سب سے بڑا نشانہ ہے سی پیک ۔ جس کے ذریعے چین پہلی مرتبہ زمینی راستے سے دنیا کے دیگر ممالک تک رسائی حاصل کر نے کی کوشش کر رہا ہے ۔ اور اس کا پہلا روٹ چینی سرحدوں سے گوادر پورٹ ہے ۔ جو پاکستانی علاقے میں ہے ۔ گویا افغانستان کے بعد بلوچستان ایک نئی عالمی کشمکش کا میدان بنتا دکھائی دیتا ہے ۔ بھارت نے امریکہ کے ساتھ دوستی کے باوجود ، روس کے ساتھ اپنے تعلقات خراب نہیں ہونے دئیے ۔ اسی طرح امریکی دبائو کے باوجود بھارت کی چین کے ساتھ تجارت روز بروز بڑھتی جا رہی ہے۔ ایک ہم ہیں کہ جن کے دوست بنتے ہیں انکی گود میں بیٹھ جاتے ہیں اور جن کی خاطر کسی سے دشمنی مول لیتے ہیں ان سے بڑے دشمن بن جاتے ہیں ۔ لیکن اب ہمارے پاس ایسی غلطیوں کی گنجائش نہیں ہے ۔ میرا آج کا شعر

ان مریضوں کے لیے آئو اٹھائیں ہاتھ ہم

جن کے نسخوں میں کوئی دستِ دعا ہوتا نہیں

تازہ ترین