• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

‏‎قدرت یا فطرت کو اس سے کوئی سروکار نہیں کہ کب کون سا دن مہینہ یا سال آتا اور کب گزر جاتا ہے کب کسی کی پیدائش ہوتی ہے یا موت،کب کوئی بڑا انقلاب آتا ہے اور کب رد انقلاب، اس کسی کی بھی پیدائش ایسے ہی ہے جیسے کسی دوسری معمولی مخلوق کی تخلیق، بظاہر ہم سورج کو جس طرح طلوع ہوتے دیکھتے ہیں اسی طرح غروب ہوتے اور چاند کو کبھی ہم بہت چھوٹی جسامت میں تلاش کر رہے ہوتے ہیں اور کبھی پورے جوبن پر آئے چودھویں کا چاند بنے ملاحظہ کرتے ہیں حالانکہ درحقیقت چاند نہ تو چھوٹا ہوتا ہے نہ ہی بڑا اسی طرح جیسے سورج طلوع ہوتا ہے نہ غروب یہ گردش ایام ،یہ دن رات کا بدلنا سب فطرت کے شاہکار ہیں جو ازل سے یوں ہی ہیں اور ابد کا کوئی سرا کسی کو معلوم نہیں ‎‏‎۔یہ ماہ و سال کی تقسیم، یہ دن، تہوار، یہ برسیاں سالگرہ، انسانی شعور کی کاوشوں کا شاہکار ہیں ورنہ قدرت یا فطرت کو ان میں سے کسی کے ہونے نہ ہونے، جانے یا آنےسے کوئی فرق نہیں پڑتا آج اگر ہم اس کائنات کا گہرائی میں جا کر جائزہ لیں تو انسانی شعوری کاوشوں اور انسانی جدوجہد کی عظمتوں پر ایمان لانا پڑے گا کیونکہ خالص ہیومن اسٹرگل سے اس کائنات میں جو عجائبات اور شاہکار تخلیق ہوئے ہیں اس پورے انسانی انفرا سٹرکچر کو مائنس کریں تو پیچھے سوائے قدرت کے حسین مناظر یا صحراؤں اور ویرانوں کے ایسا کچھ نہیں رہ جاتا جس پر انسانیت تفاخر کر سکے۔ ‎‏‎اس پس منظر میں ہمارے شکر و سپاس کے اصلی و حقیقی حقدار دنیا کے وہ فلاسفر اور سائنسدان ہیں جنہوں نے کائنات میں کرشمے کر دکھائے۔ انکے بعد وہ سیاست دان اور مدبرین ہیں جنہوں نے انسانی شعوری سفر کو موجودہ بلندیوں سے ہمکنار کیا ۔یونانی فلاسفرز سے عصر حاضر کے سائنٹفک علوم میں ترقی تک بالخصوص مغربی سائنسدانوں، مدبروں اور سیاسی قائدین کی انتھک کاوشوں تک جنہوں نے نہ صرف جدید ایجادات کے ذریعے انسانیت کی کایا پلٹ ڈالی بلکہ فکری و شعوری طور پر ہمیں یو این کا پلیٹ فارم ہی نہیں یو این ہیومن رائٹس کا وہ چارٹر بھی تھما ڈالا جس پر دنیا میں پوری طرح عمل درآمد ہو گیا ۔

درویش کی زندگی میں 1979ءکا سال سیکھنے کیلئے بہت کچھ دے کر گیا، ایسے ایسے مدوجز اس برس اٹھے ، جنکے سامنے ہمارے بحر ہند کے جوار بھاٹا کی اہمیت بھی ماند دکھائی دیتی ہے۔ اگرچہ ہمارے اس خطے ہند کی تقسیم میں 1947ءکی تباہ کاریوں کا کوئی تقابل نہیں لیکن شخصی و ذاتی طور پر ایک کلچرل مسلم کی حیثیت سے جس انقلاب یا کایا پلٹ نے سب سے زیادہ متاثر کیا وہ اتاترک کا 1924ءمیں بپا ہونیوالا ولولہ انگیز انقلاب تھا جس نے ہمیشہ کیلئے دنیائے اسلام سے شخصی آمریت کی جڑ کاٹ کر اس کا رخ جمہوریت اور منتخب پارلیمان کی طرف موڑ دیا۔ اتا ترک کے ہمہ گیر، ولولہ انگیز، جدیدیت سے لبریز انقلاب کو ہماری دو معتبر شخصیات بھی دیکھ رہی تھیں اس قدر کہ ایک کی بیٹی نے اس کا نام ہی اتا ترک پر چھپنے والی کتاب کی مناسبت سے ”گرے وولف“ رکھ دیا جبکہ دوسرا مرتے دم تک اتا ترک کیلئےدرازی عمر کی دعائیں مانگتا رہا،ان تمناؤں کے ساتھ کہ ‎‏we too one day like Turks will have to re-evaluate our intellectual inheritance.‎‏‎”ہمیں بھی ترکوں کی طرح ایک دن اپنے عقلی و شعوری ورثے کا از سر نو جائزہ لینا ہو گا“‎‏‎درویش کی علم و تحقیق سے دلچسپی رکھنے والے اپنے تمام احباب کی خدمت میں استدعاہے کہ وہ ان امور پر غور فرمائیں کہ ہمارا وہ عقلی وشعوری ورثہ کیا ہے؟ جس کا ترکوں کی طرح از سر نو جائزہ اقبال لینا چاہتے تھے؟؟ ‎‏‎پاکستانی قوم کیلئے یہ کس قدر دلچسپ اور حیرت انگیز قصہ ہے کہ اسکے ہر دو معماران اتاترک کی فکری عظمت اور ترک انقلاب کی برکات سے انکاری نہیں رہے، ان دو شخصیات کی طرف سے کہیں بھی ترکوں کےبوسیدہ نظام کیلئے ہمدردی کا ایک بول نہیں ملے گا بلکہ حکیم الامت کی تو اہم ترین کتاب جسے انکے فرزند نے ہمیشہ اقبال کی اصل فکر قرار دیا Reconstruction Of Religous Thought in Islam کی بنیاد ہی اتا ترک اور ترکوں کی جدید کایاپلٹ ہے جسے وہ دیگر تمام مسلم اقوام کیلئے بطور رول ماڈل پیش کرتے ہیں۔ اگر آج یہ دونوں اکابر زندہ ہوتے تو شاید اتا ترک کے انقلاب کی یادیں تازہ کرتے ہوئے 2024ءکے سال کو اتاترک کے سال کی حیثیت سے قومی سطح پر مناتے۔‎سی بھی مسلم سماج کا یہ واحد انقلاب ہے جو پوری صدی گزرنے کے بعد بھی قائم ہے اگرچہ خود ترکوں کے قدامت پرست ترجمان نے اتا ترک کے انقلاب کی بنیادیں کھودنے اور اسے ڈھا نے یا گرا دینے کی کوششوں میں کوئی کسراٹھا نہیں رکھی ہے جتنے سنگین حملے ہو سکتے تھے،کیے اور یہ حملے گزشتہ ربع صدی سے جاری و ساری ہیں اور نوبت یہاں تک آ پہنچی ہے کہ اس لبرل، سیکولر، ڈیموکریٹک انقلاب کو ڈھانے کی خواہش رکھنے والے اپنی قوم کے تمام فہمیدہ و تعلیم یافتہ طبقات کی حمایت سے ہاتھ دھوتے ہوئے بشمول استنبول اور انقرہ، تمام بڑے تہذیبی مراکز سے فارغ ہو چکے ہیں۔ صاف دکھائی دے رہا ہے کہ آنے والے ماہ و سال میں اتا ترک اور ترکوں کا ماڈریٹ ریولیوشن نئی آب و تاب کیساتھ پھر ابھرے گا اور بالآخر اقبال کی خواہش کے مطابق دیگر مسلم اقوام کیلئے ان کے اپنے اپنے خطوں میں ‎‏‎ رول ماڈل ثابت ہوگا۔

تازہ ترین