• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

گزشتہ دنوں میں نے قومی اسمبلی میں PIA کی وزارت نجکاری کے بھونڈے طریقے سے ناکام نجکاری ،جس پر پوری قوم میں غم و غصہ پایا جاتا ہے ،پر اعتراض اٹھاتے ہوئے نجکاری کے عمل میں فنانشل ایڈوائزر کو ادا کی جانیوالی بھاری فیس اور دیگر اخراجات کے حوالے سے ایوان کو بتایا کہ PIA کی نجکاری کیلئے دبئی کی ایک کمپنی EY Consulting LLC کو 6.9 ملین ڈالر جو تقریباً 2 ارب روپے بنتے ہیں، کی فیس کی ادائیگی پر فنانشل ایڈوائزر مقرر کیا گیا تھا جس میں 6لاکھ 9ہزار ڈالر دیگر اخراجات کیلئے دیئے گئے جس میں سے اب تک مختلف قسطوں میں دبئی کی کمپنی کو 4.1 ملین ڈالر جو تقریباً 1.2 ارب روپے بنتے ہیں، کی ادائیگی کی جاچکی ہے لیکن اس کمپنی نے PIA کی نجکاری کیلئے بیرون ملک نہ تو کوئی روڈ شو کیا اور نہ ہی حکومتی سطح پر خلیجی ممالک کو اس سلسلے میں کوئی تجویز پیش کی گئی۔ قومی ایئر لائن کی نجکاری کیلئے حکومت نے ابتدائی طور پر 6 بولی دہندگان ایئر بلیو لمیٹڈ، عارف حبیب کارپوریشن لمیٹڈ، ایئر عربیہ کی فلائی جناح، وائی بی ہولڈنگز پرائیویٹ لمیٹڈ، پاک ایتھنول پرائیویٹ لمیٹڈ اور بلیو ورلڈ سٹی رئیل اسٹیٹ ڈویلپر کو قومی ایئر لائنز میں اکثریتی حصص کیلئے شارٹ لسٹ کیا تھا لیکن ان 6 بولی دہندگان میں سے صرف ایک رئیل اسٹیٹ ڈویلپر بلیو ورلڈ سٹی نے قومی ایئر لائن کے 60 فیصد حصص کی صرف 10 ارب روپے کی بولی لگاکر مجھ سمیت ہر شخص کو حیرت زدہ کردیا جبکہ نجکاری کمیشن نے کم از کم بولی 85 ارب روپے مقرر کی تھی۔ اس غیر سنجیدہ بولی کو بعد میں کابینہ نے مسترد کردیا۔

PIA کے پاس اس وقت 34 طیارے ہیں اور مجموعی اثاثوں کی مالیت تقریباً 165 ارب روپے ہے جس کے حساب سے 60 فیصد شیئرز کی مالیت تقریباً 91 ارب روپے بنتی ہے تاہم حکومت نے خریداروں کو راغب کرنے کیلئے قومی ایئر لائن کی بولی 85 ارب روپے مقرر کی تھی۔ PIA گزشتہ کئی برسوں سے شدید مالی خسارے سے دوچار ہے اور حکومت کو ہر سال 75ارب روپے ادارے کو چلانے کیلئے جھونکنا پڑرہے ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق حکومت PIA کو اب تک 200 ارب روپے سے زائد فراہم کرچکی ہے۔ خسارے کی ایک وجہ PIA کے 7400 ملازمین ہیں اور مجموعی 34 طیاروں کے حساب سے 215 ملازمین فی طیارہ بنتے ہیں جو عالمی معیار سے دگنے ہیں۔ اس طرح قومی ایئر لائن کو خریدنے والی کمپنی کیلئے سب سے بڑا مسئلہ ادارے کے ملازمین ہیں جنہیں نجکاری معاہدے کے تحت فوری فارغ نہیں کیا جاسکتا۔ وفاقی وزیر نجکاری عبدالعلیم خان نے PIA کی نجکاری میں ناکامی کا ذمہ دار وزارت خزانہ کو قرار دیا جس نے PIA کے بولی دہندگان کے جائز مطالبات کو نہیں مانا۔ انہوں نے PIA کی نجکاری کو ایک ناقص نجکاری ٹرانزیکشن قرار دیا۔ نجکاری کمیشن نے PIA کی بیلنس شیٹ میں 623 ارب روپے کے خسارے PIA ہولڈنگ میں منتقل کردیئے تھے لیکن 45 ارب روپے کے بقایا جات منفی ایکویٹی کی صورت میں بیلنس شیٹ میں موجود ہیں جسے پانچوں بولی دہندگان نے بیلنس شیٹ سے ختم کرنے کا مطالبہ کیا تھا تاکہ PIA کی نجکاری کے وقت ادارے پر کوئی قرضہ یا خسارہ نہ ہو۔ وزارت نجکاری کے سیکریٹری عثمان باجوہ نے PIA پر FBR کے 26ارب روپے کے ٹیکس واجبات کی بھی نشاندہی کی ہے جس کی چھوٹ دینے کیلئے FBR اور IMF تیار نہیں۔ اس کے علاوہ نجکاری کے بعد PIA طیاروںکے فلیٹ میں اضافے کیلئے خریدے جانے والے نئے طیاروں پر 18 فیصد سیلز ٹیکس کی چھوٹ بھی مانگی تھی جس پر IMF آمادہ نہیں تھا لیکن اب اطلاعات ہیں کہ PIA کی نجکاری ممکن بنانے کیلئے IMF یہ دونوں شرائط ماننے کیلئے تیار ہے۔ میں نے قومی اسمبلی میں بتایا کہ اگر ہم دوسری بار PIA کی نجکاری کیلئے مکمل تیاریوں سے نہیں گئے تو ہمیں تیسرا موقع نہیں ملے گا۔

اللّٰہ تعالیٰ کا شکر ہے کہ برطانیہ اور یورپی یونین نے PIA پر عائد پابندیاں ختم کردی ہیں اور جنوری 2025 سے PIA امریکہ، کینیڈا، برطانیہ اور یورپ کے منافع بخش روٹس آپریٹ کرسکے گا جو ایئر لائن کے منافع کا باعث ہوگا اور بین الاقوامی مارکیٹ میں PIA کی ساکھ میں بہتری لائیگا۔ PIA کو طیاروں کے اسپیر پارٹس خریدنے میں مالی مشکلات کا سامنا ہے جس کی وجہ سے صرف 19طیارے آپریشنل ہیں اور 2طیارے جلد فلیٹ میں شامل ہونے کی توقع ہے۔ انتظامیہ کی کوشش ہونی چاہئے کہ فلیٹ کے تمام طیارے آپریشنل ہوں تاکہ مطلوبہ ریونیو حاصل کیا جاسکے اور 34 طیاروں کا فلیٹ PIA کے نئے خریدار کیلئے پرکشش ثابت ہو۔ میری وزیراعظم شہباز شریف، آرمی چیف جنرل عاصم منیر اور SIFC حکام سے درخواست ہے کہ وہ خلیجی ممالک سے اپنے ذاتی تعلقات استعمال کرکے حکومتی سطح پر PIA کی نجکاری یا جوائنٹ وینچر کیلئے اپنا اثر و رسوخ استعمال کریں۔ ابوظہبی پورٹ جو KPT اور پورٹ قاسم کے انتظامی امور سنبھال رہا ہے، نے PIA میں دلچسپی ظاہر کی ہے۔ وزیر خزانہ محمد اورنگزیب اور وزیر نجکاری عبدالعلیم خان کو تجویز ہے کہ PIA کی بیلنس شیٹ مکمل طور پر تمام قرضوں، واجبات اور ادائیگیوں سے صاف ہو تاکہ نیا خریدار فلیٹ میں اضافے سے قومی ایئر لائن کو منافع بخش بناسکے اور PIA ایک بار پھر فیض احمد فیض کے جملے ’’باکمال لوگ، لاجواب سروس‘‘ کے معیار پر اترسکے۔

تازہ ترین