• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

آپ کا صفحہ: مُلکی قرضے اُتارنے کی پیش کش ....

السّلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ

حافظ ثانی کا کوئی ثانی نہیں 

اکتوبر کا پہلا ’’سورج نامہ‘‘ چمکا اور ہمارا چہرہ دمکا، لبنان کے ’’حالات و واقعات‘‘ پر تجزیہ مدلّل تھا۔ ’’اشاعتِ خصوصی‘‘ میں معلمین کا تذکرہ پڑھ کر دل خُوش ہوگیا۔ ڈاکٹر سمیحہ راحیل کی تحریر ہمیشہ کی طرح عُمدہ تھی۔ وہ ایک بڑے باپ کی بیٹی ہی نہیں، خُود بھی عظیم خاتون ہیں۔ ’’پیارا گھر‘‘ تو ہوتا ہی پیارا ہے، سب ہی افرادِ خانہ مسرور نظرآتے ہیں۔ 

ڈاکٹر صومیہ اقتدار کا انٹرویو اچھا تھا۔ ’’خود نوشت‘‘ ہے کہ دو دھاری تلوار، اُمید ہے کہ اب یہ سلسلہ چل نکلے گا۔ آپ کی بزم میں شمعِ محفل محمّد بشیر نقش بندی کےحصّےآئی۔اگلا جریدہ ’’مسجد‘‘ کے موضوع پر ایک شاہ کار تحریر سے مرصّع تھا۔ بلاشبہ حافظ ثانی کے اندازِ تحریر کا کوئی ثانی نہیں۔ اِنہیں بھی باقاعدہ کوئی سلسلہ شروع کرنا چاہیے۔ 

غلام حیدروائیں کی ’’یادداشتیں‘‘ پڑھ کے بھی اچھا لگا۔ ’’حالات و واقعات‘‘ کے تجزیات سے بہت کچھ سوچنے سمجھنے کا موقع ملتا ہے۔ ’’خود نوشت‘‘ میں ’’ابدالین‘‘ کا ذکر پسند آیا۔ ’’ناقابلِ فراموش‘‘ واقعات دل چسپی کا محور ٹھہرے اور رہا ’’آپ کا صفحہ‘‘ تو بھئی، وہ تو ایک گل دستہ ہے کہ گلستان (پاکستان) کے کس کس گوشے، کونے کے گُل اِس میں یک جا نظر نہیں آتے۔ (ڈاکٹر محمد حمزہ خان ڈاھا، لاہور)

ج: جی بے شک، ’’سنڈے میگزین‘‘ کی یہ خوش بختی ہے کہ ہمیں حافظ ثانی، منور مرزا، منور راجپوت اور رؤف ظفر جیسے صاحبِ علم قلم کاروں کا تعاون حاصل ہے اور آپ کی یہ بات بھی بجا کہ پورے پاکستان ہی کے رنگارنگ گُل ’’آپ کا صفحہ‘‘ میں یک جا دکھائی دیتے ہیں۔

ڈوب مرنے کا مقام

شمارہ موصول ہوا۔ خوب رُو کا سنگھار بھی خُوب تھا۔ ’’سرچشمۂ ہدایت‘‘ میں ڈاکٹر حافظ حقانی نے حضورﷺ کی سیرتِ پاک کے نمایاں اوصاف عفوو درگزر، تحمّل و برداشت پر روشنی ڈالی۔ واقعی، تاریخِ انسانی نے آپ ﷺ سے پہلے رواداری و بُردباری کے ایسے لازوال واقعات نہیں دیکھے اورنہ ہی قیامت تک کوئی آپ کا ہم سر ہو سکتا ہے۔ 

سوچنے والی بات یہ ہے کہ آج معاشرے میں جس قدرعدم برداشت کا ماحول ہے، تو کیا ہم ایسے عظیم آقا کے غلام کہلانے کے مستحق ہیں۔ ’’حالات و واقعات‘‘ میں منور مرزا کا سوال تھا کہ’’کیا یہ آئی ایم ایف کاآخری پروگرام ہوگا؟‘‘ تو اگرہم نے اپنی روش نہ بدلی، تو جواب سو فی صد ’’نہیں‘‘ ہی ہے۔ جب تک اشرافیہ کی بے جا مراعات پر قدغن نہیں لگتی، حُکم ران اپنے تعیشّات کم نہیں کرتے، مُلکی معیشت کے سنوار کی کوئی صُورت نظر نہیں آتی۔ 

سمجھ نہیں آتا، آخر دستاویزی معیشت کے نفاذ میں کیا قباحت ہے کہ جس سے ہمارا ٹیکس ریونیو کئی گُنا بڑھ سکتا ہے۔’’رپورٹ‘‘ میں سیّد ثقلین علی نقوی 2008ء کے ہول ناک زلزلے کے19 برس بعد بھی متاثرین کی دربدری کا نوحہ سنا رہے تھے۔ اربوں ڈالرز کی امداد کن کے پیٹ میں گئی، اللہ ہی بہتر جانتا ہے۔ ’’فیچر‘‘ میں رؤف ظفر پاکستانیوں کی غیرممالک میں جرائم کی داستانِ الم لیے آئے۔ 

مطلب، ہماری عزت وقار سب داؤ پر لگ چُکے ہیں۔ 20 ہزار پاکستانی غیر ممالک کی جیلوں میں قید ہیں اور حُکم ران بے فکر ہیں، ڈوب مرنے کا مقام ہے۔ ’’سینٹر اسپریڈ‘‘ میں ایڈیٹر صاحبہ کے رائٹ اَپ میں ننّھی کلیوں کے، بابل کے انگنے سے پھول بن کررخصت ہونےکے احوال کوانتہائی دل نشیں انداز میں بیان کیا گیا۔ اشعار بھی خُوب برمحل تھے۔ بےشک، قانونِ قدرت ہے، بیٹیاں فقیر کی ہوں یا بادشاہوں کی، سدا والدین کے گھر نہیں رہتیں۔ 

اِن صفحات پر تبصرہ ہمارا حق تو نہیں بنتا، مگر بیٹیاں چوں کہ سب کی سانجھی ہوتی ہیں، تو آج تھوڑا سا ایڈوانٹیج لے لیا۔ ’’ہیلتھ اینڈ فٹنس‘‘ میں ڈاکٹر قراۃ العین ہاشمی کا مضمون فکر انگیز تھا۔ ’’نئی کتابیں‘‘ پر منور راجپوت کے ماہرانہ تبصرےکےتوکیا ہی کہنے۔ ’’خود نوشت‘‘ میں ایک رول ماڈل پولیس آفیسر، ذوالفقارچیمہ کی حیرت انگیز داستانِ حیات نہایت دل چسپی سے پڑھ رہے ہیں۔ 

اللہ تعالیٰ ہماری پوری بیوروکریسی کو ایسا ہی رول ماڈل بنادے، آمین۔ ’’پیارا گھر‘‘ میں ڈاکٹر عزیزہ انجم نے پیاری نصیحت کی کہ ’’آئینہ دیکھا کریں، آئینے کی سُناکریں۔‘‘ ’’ڈائجسٹ‘‘ میں طوبیٰ احسن بھی ’’دیوانگی‘‘ کے عنوان سے ایک عُمدہ افسانہ لائیں۔ اور اپنے صفحےکی مسند پر اپنی ہی چٹھی کو رونق افروز دیکھ کے بےحد خوشی ہوئی۔ 

آپ کے جواب پر ایک دانش وَر کا قول یاد آگیا کہ ’’بڑوں کی موت چھوٹوں کو بڑا بنادیتی ہے۔‘‘ یادرہے، یہاں موت سےمُراد اچھے خطوط نگاروں کا بزم سےغائب ہونا ہے۔ اللہ تعالیٰ میگزین کے سارے حاضر و غائب لکھاریوں کوسلامت رکھے۔ ہم تو دل سے چاہتے ہیں کہ پرانے سب خطوط نگار جلد ازجلد بزم میں لوٹ آئیں۔ (شہزادہ بشیرمحمّد نقش بندی، میرپورخاص)

ج: صرف صاحبانِ اقتدار ہی کے نہیں، عوام الناس کےبھی ڈوب مرنےکےمقامات پرتو پوری کتاب بلکہ کئی کُتب لکھی جا سکتی ہیں۔ اور آپ نے ہمارے جواب کوغالباً دل پہ لے لیا، حالاں کہ ہم آپ جیسے قارئین کی دل سے قدر کرتے ہیں اور ہم نے اپنے’’سال نامے‘‘ میں بھی اِس کا اظہار پوری شدت سے کیا ہے۔

زندہ دیکھنا چاہتا ہوں

’’ناقابلِ اشاعت کی فہرست‘‘ میں کسی بھی نگارش کو وجہ بیان کیے بغیر رَد کردینا افسوس ناک ہے، اِس سے لکھاری کی شہرت کو نقصان پہنچتا ہے۔ جس تحریر کو بھی ریجیکٹ کیا جائے، اُس کی خامیوں کی بھی لازماً نشان دہی کی جانی چاہیےتاکہ اگروہ تحریرجنگ، میگزین کے مزاج کے مطابق نہیں، تو جس میگزین کے مزاج کے مطابق ہے، وہاں ارسال کی جاسکے۔ 

جیسا کہ آپ نے ایک مضمون نگارکی شکایت کے جواب میں فرمایا تھا کہ ’’آپ کا افسانہ ہمارے جریدے کے مزاج کے مطابق نہیں، آپ یہ تحریر کسی دوسرے میگزین کو ارسال کر دیں، جو اِس نوعیت کی نگارشات شائع کرتا ہو۔‘‘ یہ یقیناً حقائق پر مبنی معقول جواز ہے۔ خیر، جریدے میں حالاتِ حاضرہ کے کسی موضوع پر ’’سروے رپورٹس‘‘ کا بھی سلسلہ شروع کیاجائے۔ 

ہوسکتا ہے، کسی قاری کا دیا گیا مشورہ عوام کے لیے سود مند ثابت ہو۔ اور ہاں،آپ کےاِس فرمان کےخلاف کہ ’’ہمیں تھوک کے حساب سے تخلیقات ارسال نہ کیا کریں۔‘‘ مَیں ایک واقعہ ارسال کررہا ہوں اوراُس کا سبب یہ ہے کہ مَیں عرصہ سے ’’ناقابلِ فراموش‘‘ صفحہ میگزین سے غائب پا رہا ہوں، جب کہ مَیں اِس صفحےکو زندہ دیکھنا چاہتا ہوں، تو آج اِس خلا کو پُرکرنے کےلیے ہی یہ جسارت کی ہے۔ 

دنیا میں شاید ہی کوئی شخص ہو، جس کے ساتھ یا اُس کے کسی تعلق دار کے ساتھ کوئی واقعہ، حادثہ پیش نہ آیا ہو۔ آپ قارئین کو دعوت دیں کہ وہ اپنے الفاظ میں کوئی بھی واقعہ، حادثہ قلم بند کرکے ارسال کریں۔ تحریر کی نوک پلک سنوار کرقابلِ اشاعت بنانا آپ کی ذمّے داری ہے۔ (چوہدری قمر جہاں علی پوری، لوہاری گیٹ، ملتان)

ج: سب سے پہلے تو آپ اپنی یہ غلط فہمی دُورفرمالیں کہ آپ کوئی ایسے توپ لکھاری ہیں کہ آپ کی کوئی تحریرری جیکٹ نہیں کی جاسکتی۔ دوسری بات یہ کہ اخبارات کے دفاتر، تدریسی ادارے یا اکیڈمیز نہیں کہ یہاں لوگوں کو قلم پکڑنا سکھایاجائے۔ 

یہ’’ناقابلِ اشاعت تحریروں کی فہرست کی اشاعت‘‘ کی کلہاڑی بھی ہم نے اپنے پاؤں پر(قارئین کے بے حد اصرار پہ) خُود ہی مار رکھی ہے، وگرنہ یہاں اِس سے پہلے ہرگز ایسی کوئی روایت نہیں تھی اور جو لوگ ’’سنڈے میگزین‘‘ کا باقاعدگی سے مطالعہ کرتے ہیں، اُنھیں جریدے کے معیار و مزاج کا بخوبی ادراک ہے، سو، وہ خود جان سکتے ہیں کہ کوئی بھی تحریر کس بنا پر رد کی گئی،ری جیکشن کی وجوہ تحریر کرنا قطعاً ہماری ذمّے داری نہیں۔ 

تیسری بات یہ کہ جس صفحے کی ’’زندگی‘‘ کے لیےآپ نےایڑی چوٹی کا زور لگا دیا، کیا کبھی اُس کے مطالعے کی بھی زحمت فرمائی ہے۔ قارئین کےلیےجس ’’دعوت‘‘ کی آپ آج نصیحت فرمارہے ہیں، وہ سال ہا سال سے ہماری طرف سے دی جارہی ہے، لیکن ہمارا کام صرف نوک پلک درست کرنے ہی کی حد تک ہے، کسی بےسروپا تحریر کو نئے سرے سے لکھنا یا کسی بےمقصد، لایعنی تحریر کو کوئی حادثہ یا واقعہ بنانا ہرگزہماری ذمّے داری نہیں۔ اِسی لیے یہ فیصلہ کیا گیا ہے کہ اب ’’ناقابلِ فراموش‘‘ کاصفحہ صرف اُسی صُورت شایع کیا جائے گا، جب اُس کے لیے معیاری تحریریں موصول ہوں گی۔

مُلکی قرضے اُتارنے کی پیش کش

ڈاکٹرحافظ محمّد ثانی کا ’’مسجد‘‘ سے متعلق دو اقساط پرمبنی مضمون ایک لا ثانی مضمون تھا۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کواُن کی ترغیبات پرعمل کی توفیق عطافرمائے، آمین۔ ’’حالات و واقعات‘‘ میں بے چارے منور مرزا بس اپنا خون ہی جلاتے رہتےہیں،کسی کےکان پرجوں بھی نہیں رینگتی۔ اِس دنیا میں جس کی لاٹھی، اُسی کی بھینس ہے۔ اور بھینسوں کے آگے بین بجانے سے بھی کچھ حاصل نہیں ہوتا۔ 

’’اشاعت خصوصی‘‘ میں حافظ بلال بشیر نے ضعیف افراد کے عالمی دن کے مناسبت سے بہترین مضمون تحریر کیا، خاص طور پر قرآنِ کریم اوراحادیثِ پاک سے جو کئی حوالے دیئے، مضمون کی اہمیت و اثر انگیزی دوچند ہوگئی۔ ’’گفتگو‘‘ میں منوّر راجپوت نے سیلانی ٹرسٹ کےبانی مولانا بشیر فاروق قادری سے بہت تفصیلاً ایک شان دار انٹرویو کیا۔ 

مولانا بشیر فاروق نےمُلکی قرضے اُتارنے کی پیش کش کی، جو ہنوز موجود ہے، لیکن ہمارے حُکم ران یہ پیش کش کبھی قبول نہیں کریں گے، کیوں کہ پھر وہ اپنی جیبیں کہاں سے بھریں گے۔ سیلانی ٹرسٹ کا تو پورا نظام تقویٰ پر تعمیر کیا گیا ہے۔ ’’خود نوشت‘‘ سلسلہ بہت ہی دل چسپ ہے، شاید ہی کوئی قاری ہو، جسے یہ تحریر پسند نہ آرہی ہو۔ 

مجھے تو اگلی قسط کا بہت شدت سے انتظار رہتا ہے۔ ’’یادداشتیں‘‘ میں اس بار31 برس پرانی یادیں تازہ کی گئیں۔ غلام حیدروائیں واقعی بہت سیدھے سادے، ایمان دار وزیراعلیٰ تھے۔ اللہ تعالیٰ مرحوم کی مغفرت فرمائے۔ ’’ناقابلِ فراموش‘‘ کے دونوں واقعات سبق آموز تھے۔ اور اب آئیے، آپ کا صفحہ‘‘ کی طرف، اِس میں ہمارا خط شامل تھا، تو آپ کا بہت بہت شکریہ۔ (سیّد زاہد علی، شاہ فیصل کالونی نمبر3 ، کراچی)

ج : چشمِ بد دُور، آج تو آپ نے کافی سیانوں بیانوں سے باتیں کیں۔ بےکار ملک کے خط کی بھی کوئی ذکر نہیں، سب خیر تو ہے۔

                             فی امان اللہ

اس ہفتے کی چٹھی

ماڈل اقراء علی سرِورق پر بہت خُوب صُورت رنگ بکھیرتے ہوئے بڑے باوقار انداز سے شمارے کو رونق بخش رہی تھیں اور پھر اُس پر یہ مصرع کہ ؎ خُوب رُو جب سنگھار کرتے ہیں… کیا بات ہے! لیکن یہ جانتے ہوئے بھی کہ آپ نے ؎ حُسنِ بے پروا کو خُود بین و خُود آراء کردیا۔ مَیں اظہارِ تمنّا سے باز نہیں رہ سکتی اورخاص طورپراُن لوگوں سےکہنا چاہوں گی کہ جنھیں اپنی تحریروں کی بےاثری کی شکایت ہے کہ وہ جریدے کےعین وسط میں موجود’’ایڈیٹر، سنڈےمیگزین‘‘ کی شگفتہ شگفتہ، دل نشین و پُرمغز تحریروں کا باقاعدگی سے بغور مطالعہ کیا کریں۔ 

نیز، آپ کے لیے بس اتنا ہی کہ ؎ اللہ کرے زورِ قلم اور زیادہ۔ طویل عرصے سے خط لکھنے کی ہمّت باندھ رہی تھی۔ اب خیر سے میری شہزادی بیٹی اپنے گھر کی ہوئی، تو کچھ فراغت ہے۔ ہاں، اِس ضمن میں میری سب ہی والدین سے استدعا ہےکہ کسی آئیڈیل کی تلاش میں اپنی بچّی کی عُمر ضایع نہ کریں۔ یوں بھی عُمر زیادہ ہو جائے تو عموماً احساسات و جذبات پر عقل غالب آجاتی ہے اور پھر ایک نئے ماحول میں ایڈجسٹ کرنا مشکل ہوجاتا ہے۔ 

خیر، سرِورق پلٹا تو ’’مدنی معاشرے کی تشکیل‘‘ کے مطالعے کا شرف حاصل ہوا۔ حافظ حقانی نے گویا سمندر کو کوزے میں سمو دیا، اتنے اہم موضوع کا کوئی پہلو تشنہ نہیں رہ گیا۔ منور مرزا نے اِس بار ہمارے اہم ترین مسئلے ’’مسئلہ معاش‘‘ کو تفصیلاً قوم کے سامنے رکھ کے سوال کیا کہ ’’کیا یہ آئی ایم ایف کا آخری پروگرام ہوگا؟‘‘ اللہ کرے، ایسا ہی ہو۔ اور اے کاش! ہمارے صاحبانِ اقتدار کے رویوں میں بھی کوئی تبدیلی آجائے کہ اگر وہ عوام کو تعلیم، روزگار کی سہولتیں مہیا کرتے، تو ہم بھی دنیا کے سامنے کشکول پھیلانے کی بجائے خُود کمانے، کھانے کے قابل ہوتے اور آج یہ دن نہ دیکھنا پڑتا۔

’’رپورٹ‘‘ میں سید ثقلین علی نقوی نے جس دل سوز انداز میں کشمیر اور خیبر پختون خوا کے زلزلہ متاثرین کا نقشہ کھینچا، ہر پاکستانی کی آنکھ پُرنم ہوگئی ہوگی۔ واقعی، بےحسی کی انتہا ہے کہ 19 سال بعد بھی بے گھر و بے سرو سامان افراد تو ہنوز داد رسی کے منتظر ہیں، جب کہ اربوں کی امداد خرد برد ہوگئی۔ ’’گرین پاسپورٹ، دنیا کا چوتھے نمبر پر بدترین پاسپورٹ‘‘ رؤف ظفر کی رپورٹ نے بھی سخت رنجیدہ کیا۔ 

اِس ضمن میں حُکم رانوں سے اِتنا ہی کہنا ہے کہ۔ ؎ شرم تم کو مگر نہیں آتی۔ ’’ہیلتھ اینڈ فٹنس‘‘ کے صفحے پر ’’پاکستان میں بریسٹ کینسر کی بڑھتی ہوئی شرح‘‘ کے موضوع پر ڈاکٹر قراۃ العین ہاشمی کا انتہائی معلوماتی مضمون پڑھنے کو ملا۔ ’’بروقت، درست فیصلہ‘‘ جیسا بہترین کلیہ ہر خاتوں کو گرہ سے باندھ لینا چاہیے۔ ’’آئینہ دیکھا کریں، آئینے کی سُنا کریں‘‘ بھی ایک نہایت دل چسپ انداز میں لکھی گئی تحریر تھی، جس کے ذریعے ڈاکٹر عزیزہ انجم نےسماجی زندگی کے سنوار کی ایک بھرپور کوشش کی۔ 

ویسے ’’پیارا گھر‘‘ اکثروبیش ترایسے ہی شان دار موضوعات سے مرصّع نظر آتا ہے۔ اِسی صفحے پر ’’بچپن برائے فروخت‘‘ کے عنوان سے ایک اور فکر انگیز تحریر بھی پڑھنے کو ملی۔ مَیں ہمیشہ بہت غورسےنئی کتابوں پرتبصرہ ضرور پڑھتی ہوں اور کسی ایسی کتاب کی تلاش میں رہتی ہوں، جو میری زندگی کو مزید بہتر بنانے میں کچھ مُمّد و معاون ثابت ہو یا کم ازکم میری رُوح کی پیاس ہی بجھا سکےاور اِس ضمن میں اختر سعیدی اور منورراجپوت قابلِ صد ستائش ہیں کہ انتہائی جامع تبصرے کے ساتھ، ہمیں درست انتخاب میں مدد فراہم کرتے ہیں۔ 

ہاں، ایک کمی جو اکثر محسوس ہوتی ہے، وہ سائنسی کتب کی ہے۔ ہمارے یہاں شاید ایسی کتب لکھی ہی کم جاتی ہیں یا پھر تبصرے کے لیے نہیں بھیجی جاتیں۔ ’’اِک رشتہ، اِک کہانی‘‘ بھی نہایت شان دار سلسلہ ہے۔ رہی میگزین کی اس قدرعُمدہ تزئین وآرائش کی بات،تومیرےخیال میں بحیثیت خاتون، یہ تو بس آپ ہی کا خاصّہ ہے۔ (شاہدہ ناصر، گلشنِ اقبال، کراچی)

ج: چلیں، آپ کی اِس بغور مطالعے کی عادت نے تو آج آپ کو سالِ نو کی پہلی بہترین چٹھی کے اعزاز کا حق دار ٹھہرا دیا۔

گوشہ برقی خطوط

* پہلی بار ایک افسانہ لکھاہے۔ کئی سالوں بعد اردو میں کچھ لکھا ہے، اس لیے لکھائی تھوڑی خراب ہے۔ اُمید ہے، اگر معیار پر پورا اُترا، تو نوک پلک سنوار کے شایع کردیں گی۔ ’’محرم الحرام اسپیشل ایڈیشن‘‘ موصول ہوا۔ ’’حکیم ابوالقاسم طوسی‘‘ کی دوسری اور آخری قسط بھی پہلی کی طرح معلوماتی تھی۔ پڑھ کے دل کانپ گیا کہ اصل انعام تب ملا، جب جنازہ اُٹھ رہا تھا۔ 

بےشک دنیا فانی ہے، دھوکے کے سوا کچھ نہیں۔ ’’سماعتوں پر محیط آواز‘‘ پڑھ کے بچپن کی یادیں تازہ ہوگئیں۔ افسانہ ’’باغِ بہشت‘‘ بہت خُوب صورت تھا۔’’آپ کا صفحہ‘‘ میں معمول کے مطابق سارے پیارے پیارے خطوط نگار شامل تھے۔ اللہ کرے، یہ محفل یوں ہی آباد رہے۔ آمین! (قرات نقوی، ٹیکساس، امریکا)

* اس دفعہ پورے تین ماہ بعد میری ای میل شایع ہوئی اور آپ نے اُس کاجواب بھی دیا، مگر بہت خوشی ہوئی، تب ہی تو پھرای میل کر رہی ہوں۔ اور بس، آج ہی سے آپ کے جواب کا انتظار شروع کردیا ہے۔ ہر ہفتے پورا جریدہ کھنگال ڈالتی ہوں۔ اللہ آپ کوخوش رکھے، لوگوں کی امانتیں اُن تک پوری ایمان داری سے پہنچا دیتی ہیں۔ (صاعقہ سبحان)

ج: تم خوش ہوگئی، سمجھو ہم خوش ہوگئے۔ کام تو ہم واقعی ہمیشہ پوری ایمان داری و دیانت داری ہی سے کرنے کی کوشش کرتے ہیں، بس کبھی کبھی حالات موافق نہیں ہوتے یا کچھ مجبوریاں آڑے آجاتی ہیں، تو لوگوں کی توقعات پر پورے نہیں اُتر پاتے۔

* جنگ، سنڈے میگزین میں میری تحریر شائع کرنے کا بے حد شکریہ۔ سچ تو یہ ہے کہ آپ کی محنت نے میری تحریر کو بہت بہتربنادیا۔ خوش رہیے۔ (ضیاءالحسن، مظفّرگڑھ)

ج: گرچہ کسی بھی قابلِ اشاعت تحریر کی نوک پلک سنوارنا ہماری ڈیوٹی میں شامل ہے، لیکن بخدا جب لوگ برملا ایڈمٹ کرتے ہیں، تو ہمارا سیروں خون ہی نہیں بڑھتا، مزید بہتر کام کرنے کی مہمیز بھی ملتی ہے۔ آپ کا بھی بہت شکریہ۔

قارئینِ کرام کے نام !

ہمارے ہر صفحے ، ہر سلسلے پر کھل کر اپنی رائے کا اظہار کیجیے۔ اس صفحے کو، جو آپ ہی کے خطوط سے مرصّع ہے، ’’ہائیڈ پارک‘‘ سمجھیے۔ جو دل میں آئے، جو کہنا چاہیں، جو سمجھ میں آئے۔ کسی جھجک، لاگ لپیٹ کے بغیر، ہمیں لکھ بھیجیے۔ ہم آپ کے تمام خیالات، تجاویز اور آراء کو بہت مقدّم ، بے حد اہم، جانتے ہوئے، ان کا بھرپور احترام کریں گے اور اُن ہی کی روشنی میں ’’سنڈے میگزین‘‘ کے بہتر سے بہتر معیار کے لیے مسلسل کوشاں رہیں گے۔ ہمارا پتا یہ ہے۔

نرجس ملک

ایڈیٹر ’’ سنڈے میگزین‘‘

روزنامہ جنگ ، آئی آئی چندریگر روڈ، کراچی

sundaymagazine@janggroup.com.pk