یہ محض اتفاق ہے کہ مجھے آج پھر سے کالم میں من موہن سنگھ کا تذکرہ کرنا پڑ رہا ہے، کیا آدمی تھا، جس نے بھارت کی معاشی مسافت کو بڑی تیزی سے طے کروایا، بھارت آج بھی من موہن سنگھ کے بتائے ہوئے معاشی راستوں پر چل رہا ہے۔ آئی ایم ایف کی رپورٹ ہے کہ بھارت 2025ء میں جاپان کو پیچھے چھوڑ کر دنیا کی چوتھی بڑی معیشت بن جائیگا، آئی ایم ایف کا اندازہ ہے کہ ہندوستان کی جی ڈی پی 2025ء میں 4.339ٹریلین ڈالر تک پہنچ جائیگی، جو جاپان کے 4.310ٹریلین ڈالر سے تجاوز کر جائیگی۔ یہ نکتہ ہندوستان کی تیزی ترین ترقی اور جاپان پر برتری کو واضح کرتا ہے۔ بھارت کیلئے یہ سب کچھ من موہن سنگھ کے باعث ہے، وہی من موہن سنگھ جو چکوال کے گاؤں گاہ میں پیدا ہوا، جو شرمیلا بچہ تھا، شاید کم لوگوں کو معلوم ہو کہ من موہن سنگھ کی آواز بہت سریلی تھی، وہ ’’لگتا نہیں ہے جی میرا‘‘ گاتے تھے اور جب امریتا پریتم کی نظم ’’اج آکھاں وارث شاہ نوں‘‘ گنگناتے تو انکی آواز پرسوز ہو جاتی۔ کامیاب لوگوں کی زندگیوں میں دکھ درد بھی عجیب ہوتے ہیں، من موہن سنگھ بہت چھوٹے تھے تو ماں کی جدائی کا صدمہ سہنا پڑا پھر جب تقسیم ہوئی تو من موہن سنگھ کا خاندان ہوشیار پور میں جا بسا، من موہن سنگھ کے گھر میں غربت کا یہ عالم تھا کہ گھر والے بجلی افورڈ نہیں کرتے تھے اور من موہن اسٹریٹ لائٹ میں پڑھا کرتے تھے۔ من موہن سنگھ کی زندگی میں بڑے مشکل ترین مراحل آئے، 1984ء میں جب اندرا گاندھی کو قتل کر دیا گیا تو وہ اس وقت ریزرو بینک آف انڈیا کے گورنر تھے، وہ اندرا گاندھی کی آخری رسومات میں شرکت کیلئے ممبئی سے دہلی آئے، یہ رات سکھوں پر بہت بھاری تھی۔ من موہن سنگھ، اندرا گاندھی کی آخری رسومات میں شریک ہو کر اپنی بڑی بیٹی کے دہلی میں واقع گھر چلے گئے، رات کو بہت سے ہندو جمع ہو کر آ گئے کہ یہ سکھوں کا گھر ہے اور ہم اسے جلا کر رہیں گے۔ اس مرحلے پر من موہن سنگھ کا داماد وجے باہر نکلا اور اس نے کہا ’’کچھ عرصہ پہلے تک یہ سکھوں کا گھر تھا، اب میں اسے خرید چکا ہوں اور میں ہندو ہوں‘‘۔ مظاہرین پلٹ گئے ورنہ اس رات من موہن سنگھ کی جان چلی جاتی، گھر والوں نے صبح منہ اندھیرے من موہن سنگھ کو ائر پورٹ روانہ کیا اور وہ دہلی سے ممبئی چلے گئے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ہندوستان کی پر اعتماد جمہوریت اور مضبوط ترین سیاسی استحکام کی داغ بیل بھارت کے پہلے وزیراعظم جواہر لعل نہرو نے ڈالی، اس بات میں بھی کوئی شک نہیں کہ بھارت کی معیشت کو مستحکم کرنے اور اسے عالمی سطح پر لانے کا سارا کریڈٹ ڈاکٹر من موہن سنگھ کو جاتا ہے، وہ 90ء کی دہائی کے ابتدائی سالوں میں جب معاشی اصلاحات کر رہے تھے تو انکی اپنی پارٹی کے لوگ ان کیخلاف ہو گئے، اپوزیشن تو ویسے ہی خلاف تھی، من موہن سنگھ نے کئی بار استعفیٰ دیا مگر وزیراعظم قبول نہیں کرتے تھے پھر ایک دن ایسا آیا کہ چکوال کا موہنا ( من موہن سنگھ ) استعفیٰ دیکر گھر آیا اور دفتر جانا بند کر دیا۔ وزیراعظم نرسیما راؤ سے کسی نے کہا کہ پارٹی کے کسی سینئر لیڈر کو بھیج کر من موہن سنگھ کو منائیں مگر اس بار وزیراعظم نے کہا کہ وہ پارٹی کے کسی سیاستدان کی نہیں سنیں گے، وزیراعظم نرسیما راؤ نے اپوزیشن لیڈر اٹل بہاری واجپائی سے درخواست کی کہ وہ من موہن سنگھ کو منائیں، من موہن سنگھ کی واجپائی سے ملاقات ہوئی تو واجپائی نے کہا ’’تم اب ٹیکنوکریٹ نہیں سیاستدان ہو، برداشت کی عادت ڈالو، وزیراعظم کی مشکلات نہ بڑھاؤ، ہمیں معلوم ہے کہ تم جو اقدامات اٹھا رہے ہو، وہ ہندوستان کی ضرورت ہیں مگر ہم اپوزیشن ہیں، ہم نے تنقید کرنی ہی ہے۔ ” کھاد کی سبسڈی پر دو روپے بڑھائے گئے تھے واجپائی نے پوچھا کہ کس قدر گنجائش ہے؟ تو من موہن سنگھ بولا ’’ایک روپے کا بوجھ اٹھایا جا سکتا ہے‘‘۔ واجپائی نے مشورہ دیا کہ’’ایک روپیہ کم کرنے کا اعلان کر دو‘‘۔ اس اعلان کے بعد اگلے دن پارلیمنٹ میں سکون ہو گیا، یہ ہے بھارت کی جمہوریت کا حُسن! کہ وہ ملکی مفاد میں ایک دوسرے سے درخواست کرنے سے بھی گریز نہیں کرتے۔ بھارت من موہن سنگھ کو اقتصادی مسیحا کے طور پر یاد رکھے گا مگر شاید وہ ان آخری سیاستدانوں میں سے تھے جو پاکستان میں پیدا ہوئے، اب صرف ایل کے ایڈوانی بچے ہیں، باقی کوئی نہیں۔ چین کو شی جن پنگ مل گیا، ملائیشیا کو ڈاکٹر مہاتیر محمد، بنگلہ دیش کو ڈاکٹر یونس گرامین، سنگا پور کو لی کوان یو اور متحدہ عرب امارات کو شیخ زاید بن سلطان النہیان نے بدل کے رکھ دیا۔ ہم نا شکرے لوگ ہیں، ہمارے ہاں ڈاکٹر محبوب الحق اور آغا حسن عابدی جیسے معاشی ماہر سامنے آئے مگر ہم نے انکی قدر نہ کی۔ قیصر بنگالی تو اب بھی ہیں مگر ہم ان کی قدر نہیں کر رہے۔ قدرت نے ہمیں سیاسی و سماجی مسیحا، عمران خان کے روپ میں عطا کیا، اسکے دور میں گروتھ ریٹ چھ فیصد تھا، اسکے انقلابی اقدامات کے چرچے ہو رہے تھے کہ اس کیخلاف سب کردار اکٹھے ہو گئے۔ ہم نا شکرے لوگ ہیں مگر مایوس نہیں۔ ایک شعر رہ رہ کے یاد آتا ہے کہ
جبر کے اندھیروں میں زندگی گزاری ہے
اب جو سحر آئے گی وہ سحر ہماری ہے