حکیم محمد سعید کا نام ایسے عظیم انسانوں کی فہرست میں شامل ہے جنہوں نے اپنے خوابوں کو حقیقت کا روپ دینے کے لیے اپنی پوری زندگی وقف کر دی۔ ان کی شخصیت کی جامعیت صرف ایک حکیم کی حد تک محدود نہیں تھی بلکہ وہ ماہر تعلیم، دانشور، اور قوم کے خدمت گزار تھے۔
انہوں نے نہ صرف طب کی دنیا میں انقلاب برپا کیا بلکہ اپنی بے پناہ فکری بصیرت سے تعلیم، ثقافت، اور عوامی خدمت کے میدان میں کارہائے نمایاں انجام دیئے جنھیں ہمیشہ سنہری حروف میں لکھا اور انتہائی عقیدت سے یاد کیا جائے گا۔
حکیم محمد سعید، جنہیں شہادت کا عظیم مرتبہ حاصل ہوا، ایک ایسی شخصیت کے مالک تھے جن کی زندگی کا ہر لمحہ انسانیت کی خدمت، علم کی روشنی پھیلانے، اور قوم کی تعمیر میں مصروف رہا۔ ان کی شخصیت کی ہمہ جہتی، علم کی وسعت، اور بے پایاں خدمات کا احاطہ کرنا سورج کو چراغ دِکھانے کے مترادف ہے، کیونکہ ان کی زندگی کا ہر پہلو ہمارے لیے ایک مشعل راہ ہے۔ پاکستان میں طب یونانی کے فروغ، تعلیم و تربیت کے اعلیٰ معیار کے قیام، اور قومی تعمیر میں ان کی کاوشوں کو تاریخ ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔
حکیم محمد سعید کے والد حکیم عبدالمجید مشہور و معروف طبیب تھے اور ''دواخانہ ہمدرد'' کے بانی تھے۔ اسی ماحول میں پرورش پاتے ہوئے حکیم محمد سعید کو طب کی جانب رجحان ملا۔ انہوں نے ابتدائی تعلیم کے بعد علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے فارغ التحصیل ہو کر طب میں مہارت حاصل کی۔
تقسیم ہند کے بعد پاکستان آ گئے۔ پاکستان سے اعلیٰ تعلیم کے لیے وہ ترکی گئے جہاں انھوں نے 1952 میں پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی۔ واپس پاکستان آکر یہاں انھوں نے اپنی خداداد صلاحیتوں کو انسانیت کی خدمت کے لیے وقف کر دیا۔ اس کے لیے انھوں نے ''ہمدرد'' کے نام سے دوا سازی کا ادارہ قائم کیا۔
’ہمدرد‘ کا سفر صرف ایک دوا ساز ادارے کے طور پر شروع ہوا، لیکن حکیم محمد سعید نے اسے ایک قومی تحریک میں تبدیل کر دیا۔ انہوں نے ادویات کی تیاری میں جدید سائنسی اصولوں کو متعارف کرایا اور روایتی طب کو نئے معیارات پر استوار کیا۔
ان کی قیادت میں ہمدرد نہ صرف طبی میدان میں ایک مثالی ادارہ بنا بلکہ یہ تحقیق، تعلیم، اور عوامی فلاح و بہبود کا مرکز بھی بن گیا۔ ان کی بصیرت کے نتیجے میں ہمدرد یونیورسٹی کا قیام عمل میں آیا، جہاں تحقیق اور جدید تعلیم کو فروغ دیا گیا۔
ہمدرد فاؤنڈیشن اور ہمدرد یونیورسٹی جیسے اداروں کا قیام ان کی اسی بصیرت کا مظہر ہے، جو آج بھی طلبا کو جدید طب، انجینئرنگ، اور دیگر علوم میں بہترین تعلیم فراہم کر رہی ہے۔ ہمدرد نونہال جیسے بچوں کے رسالے نے نوجوان نسل کی فکری اور اخلاقی تربیت میں نمایاں کردار ادا کیا ہے۔
طب یونانی کے فروغ میں حکیم محمد سعید کا کردار بے مثال ہے۔ انہوں نے قومی اور بین الاقوامی سطح پر مختلف فورمز پر اس قدیم علم کی اہمیت کو اجاگر کیا۔
حکیم محمد سعید ایک کثیر التصانیف مصنف تھے جنہوں نے طب، تعلیم، اور معاشرتی موضوعات پر سینکڑوں کتابیں تصنیف کیں۔ ان کی تصانیف نے نوجوانوں کو علم کی روشنی فراہم کی اور معاشرتی اصلاح میں اہم کردار ادا کیا۔ ان کی کتابیں نہ صرف پاکستان بلکہ بیرون ملک بھی مقبول ہوئیں۔
ان کی تصنیف و تالیف کا دائرہ وسیع تھا، ان کی کتب میں طب، تاریخ، اور اخلاقیات پر گراں قدر مضامین شامل ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ ایک صحت مند قوم ہی ترقی کر سکتی ہے، اور اس مقصد کے لیے انہوں نے اپنی زندگی وقف کر دی۔ ان کی کتابیں آج بھی علمی دنیا میں مشعلِ راہ ہیں۔
جب وہ گورنر سندھ بنے تو اس وقت بھی انھوں نے عوامی فلاح و بہبود کو باقی ہر چیز پر مقدم رکھا۔ انھوں نے صحت، تعلیم، اور معاشرتی ترقی کے کئی منصوبے شروع کیے۔ ان کی قیادت میں تعلیمی اداروں کو بہتر بنانے اور تحقیق کے مواقع پیدا کرنے پر زور دیا گیا۔ ان کا ماننا تھا کہ سیاست کو خدمت کا ذریعہ ہونا چاہیے، اور انہوں نے اپنے عمل سے اس اصول کو ثابت کیا۔
ان کی زندگی عوامی خدمت کا جیتا جاگتا ثبوت تھی۔ انہوں نے کبھی اپنی ذات کے لیے فوائد حاصل نہیں کیے بلکہ اپنی تمام تر توانائیاں قوم کی فلاح و بہبود کے لیے صرف کیں۔
حکیم محمد سعید کی زندگی ہمیں یہ سبق دیتی ہے کہ خلوص، دیانت داری، اور انسانیت کی خدمت کے اصولوں پر چل کر ہم نہ صرف اپنے خوابوں کو پورا کر سکتے ہیں بلکہ ایک بہتر دنیا کی تعمیر میں بھی اپنا حصہ ڈال سکتے ہیں۔ ان کی خدمات اور قربانی کو تاریخ ہمیشہ یاد رکھے گی، اور ان کا نام ہمارے دلوں میں ہمیشہ زندہ رہے گا۔
شہید حکیم محمد سعید کی شخصیت کو خراجِ تحسین پیش کرتے ہوئے ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ آج بھی ان کی تعلیمات اور نظریات پر عمل کرنے کی ضرورت ہے۔ وہ ایک عہد ساز شخصیت تھے جنہوں نے ہمیں یہ سکھایا کہ عظمت صرف مال و دولت میں نہیں بلکہ خدمتِ خلق میں ہے۔
حکیم محمد سعید کا پیغام سادگی، علم دوستی، اور انسانیت کی خدمت پر مبنی تھا۔ وہ نوجوانوں کو ہمیشہ محنت، دیانتداری، اور خلوص کا درس دیتے تھے۔ ان کی زندگی سے یہ سبق ملتا ہے کہ عظیم مقاصد کے حصول کے لیے عزم اور جدوجہد ضروری ہیں۔ ان کی خدمات اور کارنامے رہتی دنیا تک یاد رکھے جائیں گے۔