• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

کابل دنیا کے ان چند شہروں میں سے ایک ہے جو پینتیس ہزار سال سے زیادہ قدیم ہیں اس شہر نے کئی تہذیبیں ابھرتی اور اجڑتی دیکھی ہیں۔ موجودہ بربادی کا آغاز سوویت یونین سے جنگ کے ساتھ شروع ہوا۔ واشنگٹن کی مدد سے جاہلیت پہاڑوں سے اتری۔ آرٹ گیلریاں گرا دی گئیں۔ فن پارے، شاہکار مجسمے توڑ دئیے گئے۔ قدیم افغانی آرٹ باڑے کے ڈھابوں تک پہنچ گیا اور طالبان غاروں سے نکل آئے۔ کابل کا تاریخی میوزیم پرچون کی دکان بن گیا۔ اس کے ستر فیصد نوادرات بلیک مارکیٹ میں فروخت ہو ئے۔ خرانہ لوٹ لیا گیا۔ گریکو- بیکٹرین دور کے چار ٹن سونے اور چاندی کے سکوں میں سے اڑھائی ٹن سوئٹزر لینڈ پہنچ گئے اور باقی پگھلا دئیے گئے۔ پینٹنگ اور آرٹ کی کتابوں کو جلا دیا گیاکہ تصویر کشی جائز نہیں۔ پلی خمری پبلک لائبریری راکھ ہو گئی جس میں ہزاروں انتہائی قیمتی مخطوطات تھے۔ بدھا کے دیو ہیکل مجسموں کو ٹینکوں اور طیارہ شکن توپوں سے تباہ کیا گیا۔ موسیقی حرام قرار دے دی گئی۔ ستاروں اور گٹاروں سےکرکٹ کھیلی جانے لگی۔ آخری عظیم موسیقار اور گلوکار ناشناس بھی ملک چھوڑ گیا۔ کئی اداکار اور شاعر قتل کر دئیے گئے۔ کئی عظیم رقاصائیں مار دی گئیں۔ فنون لطیفہ سے تعلق رکھنے والی کوئی چیز سلامت نہ رہی۔

طالبان دوبارہ کابل پر قابض ہوئے تو کہا کہ ہم ماضی کی غلطیاں نہیں دہرائیں گے دنیا کے ساتھ اسی طرح چلیں گے، جیسےچلنا چاہئے مگر وہ صرف اعلان تھا۔ پھر عورتوں کے حقوق چھین لئے۔ تعلیمی ادارے تو کجا انہیں پارکوں، ورزش گاہوں اور دیگر عوامی مقامات پر جانے سے بھی روک دیا گیا ہے۔ انہیں یوں قید کر دیا گیا جیسے وہ انسان نہیں ہیں۔ طالبان نے آتے ہی یہ اعلان کیا تھا کہ وہ اب دہشت گردی کی بالکل حوصلہ افزائی نہیں کریں گے مگر اسی طرح دہشت گرد تنظیموں کی سرپرستی جاری رہی، انہیں فنڈ فراہم کیے جاتے رہے۔ انہیں اپنے ہیڈ کوارٹر تعمیر کرنے کیلئے جگہیں دی گئیں۔

ہر طرف ایک ہی سوال گونج رہا تھا کہ طالبان کے ڈالرز کہاں سے آ رہے ہیں۔ اللہ بھلا کرے ٹم بر شیٹ کا، امریکی کانگریس کے اس رکن نے صدر ٹرمپ کو خط لکھ دیا۔ اس خط نے یورپ اور امریکہ کو عریاں کر دیا۔ جس میں طالبان حکومت کو دی جانے والی فنڈنگ کو ”دہشت گردوں“ کی مالی معاونت کے ساتھ تشبیہ دی۔ امریکی سیکرٹری انٹونی بلنکن نےاعتراف کیا کہ طالبان کو تقریباً 10ملین ڈالر کی رقم غیر ملکی امداد ٹیکس کی مد میں ادا کی گئی ہے۔ ایلون مسک نے افغانستان کے مرکزی بینک کو بھیجی جانے والی رقم کی ترسیل کوبے یقینی اور حیرت سے دیکھا۔

ٹم برشیٹ نے یہ الزام بھی عائد کیا کہ طالبان کو فنڈز فراہم کرنے سے دنیا بھر میں دہشت گردی کی مالی معاونت کا منصوبہ بنایا جا رہا ہے۔ یہ سوال بھی اٹھایا جا رہا ہے کہ افغان حکومت پر امریکی ڈالرز کی بارش کیا پاکستان کو غیر مستحکم کرنے کی کوئی سازش ہے؟۔ یہ معاملہ بہت گھمبیر ہے۔ ہر ہفتے ستاسی ملین ڈالر ز کے افغانستان پہنچنے کے تمام ثبوت سامنے آ گئے ہیں ایک بین الاقوامی ویب سائٹ انٹر اٹلانٹک انٹلیجنس کنسورشیم کی رپورٹ کے مطابق، ہر ہفتے تقریباً 87ملین ڈالر کی امریکی امداد افغانستان بھیجی جاتی ہے، جس کا بڑا حصہ طالبان حکومت کے علاوہ تیس فعال دہشت گرد تنظیموں کو فراہم کیا جاتا ہے جن کے ہیڈ کوارٹر افغانستان میں ہیںاس کے علاوہ، ہر ماہ قطر میں موجود طالبان کے دوحہ دفتر کو ’’انتظامی اخراجات‘‘ کے نام پر 10ملین ڈالر دیے جاتے ہیں۔

میں سوچتا تھا کہ بین الاقوامی پابندیوں اور عدم تعاون کے باوجود افغان حکومت نہ صرف اپنی جگہ برقرار ہے بلکہ ان تنظیموں کی سرپرستی بھی کر رہی ہے۔ اس خطیر رقم میں سے 40ملین ڈالر ہر ہفتے افغان حکومت کے نام نہاد انتظامی اخراجات، جیسے پولیس اور طالبان فورسزپر خرچ ہوتے ہیں۔ باقی کے 47ملین ڈالر دہشت گرد تنظیموں کے ذریعے خطے میں بدامنی پھیلانے کیلئے استعمال کیے جاتے ہیں۔ یہ 47ملین ڈالرز آٹھ مختلف جگہوں پر وسائل کے طور پر استعمال ہوتے ہیں۔ یقیناً افغانستان میں دہشت گرد تنظیموں کیلئے محفوظ پناہ گاہیں بنانا کسی طاقتور حمایت کے بغیر ممکن نہیں ہے۔ امریکہ کی جانب سے ان تنظیموں کو براہِ راست یا بالواسطہ مدد فراہم کرنا اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ خطے میں جان بوجھ کر بدامنی اور انتشار کو پروان چڑھایا جا رہا ہے۔ پاکستان، جو پہلے ہی دہشت گردی کے خلاف ایک طویل جنگ لڑ چکا ہے، اس سازش کا سب سے بڑا شکار ہے۔ افغان سرزمین سے پاکستان پر حملے، دراندازی اور دہشت گردی کے واقعات معمول بن چکے ہیں۔ 2014 میں آرمی پبلک اسکول کے سانحے جیسا دل دہلا دینے والا واقعہ، جس میں سینکڑوں بچے اور اساتذہ شہید ہوئے، اس حملے میں افغان سرزمین پوری طرح استعمال ہوئی۔ بلوچستان میں چینی منصوبوں پر حملے، قبائلی علاقوں میں بڑھتی ہوئی دہشت گردی، اور ٹی ٹی پی کی سرگرمیاں بھی اسی سازش کا حصہ ہیں۔ یہ صورتحال نہ صرف پاکستان بلکہ پورے خطے کیلئے تباہ کن ہے۔ کیسی عجیب بات ہے کہ ایک طرف افغان عوام بھوک اور غربت کا شکار ہیں، تو دوسری طرف افغان حکومت دہشت گرد تنظیموں کی پشت پناہی میں مصروف ہے۔ جب تک بین الاقوامی برادری اس مسئلے پر سخت اقدامات نہیں کرے گی، خطے میں امن کا قیام ممکن نہیں ہو گا۔ صدر ٹرمپ کے آنے کے بعد ہمیں امریکہ کے ساتھ اپنے تعلقات کو نئے سرے سے دیکھنا چاہئے۔ ہم امریکہ کے ساتھ تعلقات کے ایک نئے دور کا بھی آغاز کر سکتے ہیں۔ افغانستان سے نیٹو کی فوجیں واپس بلانے کا فیصلہ بھی صدر ٹرمپ نے ہی کیا تھا۔ اس سے اب بھی بہتری کی توقع کی جا سکتی ہے مگر اس کیلئے امریکہ میں مقیم ناراض پاکستانیوں کو راضی کرنا ہو گا۔

تازہ ترین