السّلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ
ایک قدیمی روایت
’’جنگ، سنڈے میگزین‘‘ شاید ایک ایڈکشن ہے، جوچھوڑے نہیں چُھوٹتی۔ آج بھی ہر سوموار کو لائبریری جاکر دیگر اخبارات کے ساتھ جنگ میگزین اور ’’آپ کا صفحہ‘‘ ضرور پڑھتا ہوں۔ بہت عرصے سے کوئی اخبار بھی نہیں خرید رہا، کبھی اتوار کو چار اور عام دنوں میں دو سے زائد اخبارات خریدتا رہا ہوں۔ ایک وجہ تو ہوش رُبا منہگائی ہے۔ دوم، چوں کہ اتوارکےعلاوہ ہر روز لائبریری جاتا ہوں، تو وہیں مطالعہ کرلیتا ہوں۔ ’’آپ کا صفحہ‘‘ سے میرا تعلق 2009-10ء سے، جب کہ سنڈے میگزین سے 1998ء سے ہے۔
ابتدائی وقت کے کچھ شمارے شاید اب بھی محفوظ ہیں۔ اس ہفتے محمّد صادق کے خط کے جواب میں حبیب اللہ کو یاد کیا گیا، اور آپ نے محمّد حسین ناز کا نام لیا۔ سچ پوچھیں، تو آپ کے اس جملے نے دل چیردیا کہ ’’وقت کی دبیز دھول میں کیا کیا کچھ نہ چُھپ گیا، ہم کہاں کہاں اور کسے کسے ڈھونڈیں۔‘‘
بلاشبہ، یہی حقیقت ہے کہ وقت کی دھول سے بچھڑے ہوؤں کو تلاشنا بہت مشکل ہے، حتیٰ کہ جیتے جاگتے انسان بھی یک سربدل جاتے ہیں۔ ویسے مجھے بڑی حیرت ہوتی ہے کہ اتنے برسوں میں آپ کچھ خاص نہیں بدلیں۔ آج بھی اُسی جرات و ہمت، بھرپور توانائی کے ساتھ برسرِ پیکار ہیں۔ اس ہفتے رئوف ظفر ’’دنیا کے چوتھے بدترین پاسپورٹ‘‘ کا احوال لائے۔ کوئی شک نہیں کہ یہ ہمارے اپنے ہی ہی کرتوتوں کےسبب ہے۔
مُلکوں کی عزت ووقار میں اضافہ اُن کے باسی کرتے ہیں، جب کہ ہمیں سوائے گِلوں شکووں، رونے دھونے کے کوئی کام ہی نہیں۔’’اِس ملک نے ہمیں کیا دیا ہے؟‘‘ کا سیاپا ہی ڈالے رکھتے ہیں، بجائے اس کے کہ کبھی اس امر پر بھی غور کریں کہ خود ہم نے اِس مُلک کے لیے کیا کیا۔ ’’سینٹر اسپریڈ‘‘ میں آپ کی تحریر بیٹیوں کی چاہت و محبت اور وقار میں اضافہ کررہی تھی، خصوصاً بیٹی کے بچپن کی منظر کشی پڑھ کے اپنی بیٹی کے اسکول پہلا دن یاد آگیا، جب مَیں نے اُس کی ویڈیو بھی بنائی تھی۔ نیز، تحریر کو منظر بھوپالی اور ساحر لدھیانوی کے اشعار نے تو جیسے چار چاند لگادیئے۔
پولیس کے شان دار آفیسر، ذوالفقار چیمہ کی کہانی حد درجہ متاثر کن ہے۔ اےکاش! پولیس کو ایسے کچھ اور آفیسرز بھی مل جائیں تو عوام کا بھلا ہوجائے۔ ’’پیاراگھر‘‘میں ڈاکٹرعزیزہ انجم کی ’’آئینہ دیکھا کریں، آئینے کی سُنا کریں۔‘‘ ایک منفرد تحریر تھی۔ آپ کا جریدہ واقعی منحنی سا رہ گیا ہے۔
کبھی 40 سے زائد صفحات کے ساتھ بھی آتا رہا ہے، لیکن میرے خیال میں، اِس وقت مُلکی معیشت کا جو حال ہے، یہ بھی غنیمت ہے۔ اصل مسئلہ تواشتہارات کا ہے، اخبارات کو اشتہارات نہ ملیں، تو سروائیول مشکل ہی ہو جاتا ہے اور آپ نے تو جریدے کے ساتھ ایک قدیمی روایت ’’خط وکتابت‘‘ بھی زندہ رکھی ہوئی ہے۔
خُود میں قلم، کاغذ کا استعمال قریباً چھوڑ ہی چُکا ہوں۔ پچھلے دو سال سے مختلف رسائل کو مضامین، کہانیاں یونی کوڈ ہی میں لکھ کر بھیج رہا ہوں۔ آج ایک عرصے بعد خط لکھنے کا ارادہ کیا تو بیٹی سے قلم، کاغذ لیا۔ پوسٹ آفس سے لفافہ لے کر آیا اور ایک زمانے بعد لیٹر بکس کی شکل دیکھی۔ ہا ہا ہا… ویسے سچ تو یہ ہے کہ روایتی خط وکتابت کا اپنا ہی ایک حُسن، رومانس ہے۔ (رانا محمّد شاہد، گلستان کالونی، بورے والا)
ج: یہ کاغذ، قلم سے رشتہ ٹُوٹنے ہی کا تو نتیجہ ہے، جو آج ہمیں فیک نیوز کے ایک سیلابِ بلا کا سامنا ہے۔ پھر اِس ’’کاپی، پیسٹ کلچر‘‘ نے ہر دوسرے شخص کو دانش وَر بھی بنا دیا ہے۔ مگر…ہمیں تو لگتا ہے، جس دن ہمارا کاغذ، قلم سے رشتہ ٹوٹ گیا، جسم و رُوح کا رشتہ بھی ٹوٹ جائے گا۔ سو، اپنے تئیں جب تک کچھ قدیمی روایات کو زندہ رکھ سکتے ہیں، سعی جاری رکھیں گے۔
رونق لگتی رہتی ہے
ہمیشہ کی طرح اس بار بھی دو ہی شماروں پر تبصرہ کروں گا۔ شُکر، الحمدللہ کہ دونوں میں ’’سرچشمۂ ہدایت‘‘ کے متبرک صفحات موجود تھے۔ ’’کیا یہ آئی ایم ایف کا آخری پروگرام ہوگا؟‘‘ منور مرزا کا استفسار تھا، تو ہماری تو دُعا ہے کہ اللہ کرے، ایسا ہی ہو، مگر لگتا نہیں۔ ’’گرین پاسپورٹ، دنیا کا چوتھا بدترین پاسپورٹ‘‘ پڑھ کر دل سخت افسردہ ہوگیا کہ ہم نے اِس مُلک کو کس حال تک پہنچا دیا ہے۔
ٹی وی پر وہ منظر دیکھ کر بھی ازحد شرمندگی ہوئی کہ ہمارے مُلک کے گورنر اسٹیٹ بینک کی دوسرے مُلک میں کس انداز سے چیکنگ ہورہی ہے۔ ’’خود نوشت‘‘ میں ذوالفقار احمد چیمہ کی سبق آموز داستانِ حیات سے زندگی گزارنے کے رنگ ڈھنگ سیکھنے میں بڑی مدد مل رہی ہے۔ پاکستان میں بریسٹ کینسر کی شرح بڑھ رہی ہے، یہ جان کرسخت دُکھ ہوا۔ اور ہاں، یہ سچ ہےکہ ہمیں بھی اپنے صفحے کے خطوط نگاروں حبیب اللہ خان اور محمّد حسین ناز کی بہت یاد ستاتی ہے۔
شنگھائی کانفرنس میں پاک، بھارت قربتیں بڑھیں۔ اللہ کرے، یہ سلسلہ دوام پائے کہ جنگوں سے علاوہ خون خرابے کے کچھ حاصل وصول نہیں۔ ’’جبری مشقّت کے شکار بچّے، سنگین معاشرتی المیہ، بڑا سوالیہ نشان‘‘ انتہائی فکر انگیز تحریر تھی۔ سابق رکن بلوچستان اسمبلی، شکیلہ نوید دہوار نے بھی اپنے ’’انٹرویو‘‘ میں تلخ حقائق بیان کیے۔ اعتراض ملک تو بس یوں ہی اونگیاں بونگیاں مارتے رہتے ہیں۔ ہاں، یہ ضرور ہے کہ محفل میں رونق لگی رہتی ہے۔ (پرنس افضل شاہین، نادر شاہ بازار، بہاول نگر)
ج: آپ کے لیے رونق لگی رہتی ہوگی، ہمارے لیے تو گویا اک ’’سر دردی‘‘ لگی ہوئی ہے۔
بڑے اور منجھلے کا ایک ہی نام؟؟
’’حالات و واقعات‘‘ میں منور مرزا کا مضمون پڑھا۔ امریکی انتخاب پر اِس سے عمدہ تجزیات کہیں پڑھنے، دیکھنے کو نہیں ملے۔ عمومی طورپر چینلز پرجو دانش وَر افراد بیٹھے دکھائی دیتے ہیں، وہ تو بس یوں ہی اِدھر اُدھر کی ہانک رہے ہوتے ہیں۔ ’’خانوادے‘‘ میں ڈاکٹر قمر عباس ’’داستان سرائے‘‘ کے مکینوں کے ساتھ آئے اور ہمیشہ کی طرح بہت ہی شان و شوکت اور تمکنت کے ساتھ۔
تصاویر بھی بہت ہی شان دار تھیں۔ پہلی مرتبہ اشفاق احمد اور بانو قدسیہ کی ایسی عُمدہ تصویریں دیکھنے کوملیں۔ بلاشبہ اچھی تصاویر کے سبب کسی بھی تحریر کا تاثر دگنا ہوجاتا ہے۔ اور ہاں، مضمون میں ایک غلطی بھی ہوئی۔ بڑے اور منجھلے دونوں صاحب زادوں کا نام ’’انیق احمد‘‘ ہی لکھ دیا گیا۔ ’’ڈائجسٹ‘‘ میں ناہید خان کا افسانہ درد‘‘ بہت پسند آیا۔ (رونق افروز برقی، دستگیر کالونی، کراچی)
ج: جی، آپ نے بالکل درست نشان دہی کی۔ سہواً منجھلے صاحب زادے کا نام انیس احمدخان کے بجائے انیق احمد خان لکھا گیا۔ قارئین بھی اصلاح و درستی فرمالیں۔
بے ربط، ٹوٹے پُھوٹے الفاظ
آپ جس انداز سے میرا خط شائع کرتی ہیں، بخدا مَیں سوچتا رہ جاتا ہوں کہ آج کے دَور میں بھلا کون اس قدر تردّد کرتا ہے۔ میرے بےربط، ٹوٹے پُھوٹے لفظوں کو زبان دینا، آپ ہی کا طرۂ امتیاز ہے۔ مَیں دل سے تسلیم کرتا ہوں کہ آج اگر ’’سنڈے میگزین‘‘ تابندہ و پائندہ ہے ، تو یہ سب آپ ہی کی محنتوں کی بدولت ہے۔ (سید شاہ عالم زمرد، اکبرآبادی، راول پنڈی)
ج: اگر تھوڑی سی محنت فرما کے آپ بے شمار ٹوٹے پُھوٹے، بے ربط الفاظ کی جگہ، چند مربوط و مسبوط الفاظ لکھنے کی کوشش کریں، تو ہم اس تردّد سے بچ بھی سکتے ہیں۔
کوئی اچھی سی پیش گوئی
آپ کی یہ بات بالکل درست ہے کہ ہم صرف لوگوں کی توجّہ حاصل کرنے کے لیے اِدھر اُدھر کی ہانکتے رہتے ہیں۔ گویا شعبۂ صحافت کے ساتھ آپ علمِ نجوم کی بھی ماہر ہیں۔ اب اپنے علم کی بنیاد پر یہ بھی ارشاد فرما دیجیے کہ کراچی کی سڑکیں کب تک ٹھیک ہوجائیں گی، کیوں کہ ہمیں تو لگتا ہے کہ یہ شہر، کھڈوں کا ایک جمعہ بازار ہے۔ سڑکوں پر گڑھے نہیں، بلکہ گڑھوں کے درمیان تھوڑی تھوڑی سی سڑکیں ہیں۔
نیز، یہ بھی کہ مُلک سے منہگائی کب کم ہوگی، کب بجلی کے بلز سے اضافی ٹیکسسز ختم ہوں، کب عوام کوسرکاری نوکریاں ملیں گی اور ہم کب سرکاری ملازمت حاصل کر پائیں گے؟؟ یہ سب کب تک ہوگا، ذرا کوئی اچھی سی پیش گوئی تو فرمادیں، تاکہ ہم بھی کسی اُمید کا دامن تھام کر زندہ رہنے کی کوشش کریں۔ (نواب زدہ بےکار ملک، سعید آباد، کراچی)
ج: یہ سب کچھ، آپ کی عادات و حرکات کے سدھار سے مشروط ہے، جب آپ ٹھیک ہو جائیں گے، سب ٹھیک ہو جائے گا۔
بھرپورلُطف اٹھا رہے ہیں
’’حالات و واقعات‘‘ میں منور مرزا نے ’’کمیونی کیشن ڈیوائسز یا بم…دنیا ایک نئی سائبر وارفیئر میں‘‘ کے عنوان سے بےمثال تجزیہ پیش کیا۔ ’’رپورٹ‘‘ میں ڈاکٹر سمیحہ راحیل قاضی نے ’’وقت کا کربلا، غزہ‘‘ کےعنوان سے ایک دل خراش تحریر لکھ کر روح تک جھنجھنا دی۔ ’’اشاعتِ خصوصی‘‘ میں معلمین، اساتذہ سے متعلق مضامین کا کوئی ثانی نہ تھا۔ ’’پیارا گھر‘‘ میں نادیہ سیف نے مثبت عادات کے فروغ کے ضمن میں اچھی تجاویز پیش کیں۔ ڈاکٹر سومیہ اقتدار سے رؤف ظفر کی بات چیت شان دار رہی۔
بنتِ صدیق کاندھلوی کا مضمون بھی معلومات افزا تھا۔ ’’خُودنوشت‘‘ میں ذوالفقار احمد چیمہ جس خُوب صُورتی و دل چسپی سے قارئین کو اپنی داستانِ حیات سُنا رہے ہیں، یقیناً قارئین بھی ویسے ہی بھرپور لُطف اٹھا رہے ہیں۔ خصوصاً ماضی کی یادگار تصاویر دیکھنا بہت ہی اچھا معلوم ہو رہا ہے۔
ڈاکٹر ناظر محمود کا مضمون کچھ سمجھ نہیں آیا۔ یہ متوازی سنیما کیا بلا ہے؟ بابر سلیم خان نے لیوٹالسٹائی کے حالاتِ زندگی بیان کیے، معلومات میں اضافہ ہوا۔ اور اب آئیے، ’’آپ کا صفحہ‘‘ کی طرف، اس شمارے میں ہماراخط شامل نہیں تھا، کوئی بات نہیں، اگلے شمارے میں شامل ہوجائے گا۔ ہاں البتہ خادم ملک عرف بےکار ملک کا خط خوب جگمگا رہا تھا۔ (سیِّد زاہد علی، شاہ فیصل کالونی نمبر3 ، کراچی)
فی امان اللہ
’’قارئینِ کرام‘‘ کے عنوان سے جو پیغام آپ کی طرف سے ہر اتوار ’’سنڈے میگزین‘‘ میں شائع ہوتا ہے، اُس سے حوصلہ پا کر اور چند ٹوٹے پُھوٹے الفاظ کا سہارا لےکرحاضری کی جسارت کررہا ہوں۔ ہمیں وہ دَور نصیب ہوا ہے، جس میں چٹھی (خط) لکھنے کی روایت تقریباً دَم توڑ چُکی ہے۔
اپنے والدِ محترم سے سُنا ہے کہ ایک وقت تھا کہ لوگ خط کو ’’آدھی ملاقات‘‘ تصوّر کرتے تھے۔ اکثر لوگ اپنے عزیز و اقارب، دوست احباب کو ضرورتاً اور بعض اوقات حال احوال پوچھنے کے لیے باقاعدگی سے خط لکھا کرتے تھے۔
والد صاحب ہی نے بتایا کہ دادی جان اپنی بیٹیوں کو، جو دُور دراز شہروں میں بیاہی ہوئی تھیں، ہر ماہ خط لکھتی تھیں اور پھر اُن کے جوابات کے لیے ڈاک بابو کا رستہ بھی دیکھا کرتی تھیں اور یہ سلسلہ تب تک چلتا رہا، جب تک ہمارے گھر ٹیلی فون نہیں آگیا اور آج غالباً یہ پہلا خط ہے، جو دادی مرحومہ کے بعد بندۂ ناچیز ’’سنڈے میگزین‘‘ کو لکھ رہا ہے۔
اخبارِ جہاں اور یہ جریدہ ایک عرصے سے ہمارے گھر باقاعدگی سے آتے ہیں۔ مگر آج ’’آپ کا صفحہ‘‘ پر نظر پڑی تو دل بےاختیار چاہا کہ کیوں نہ اس صفحے پر زندگی کے پہلے خط سے طبع آزمائی کی جائے اور پھر جب صفحے کے آخر میں ’’قارئینِ کرام‘‘ کو انتہائی عزت و احترام سے مخاطب کر کے بلاجھجک اور لاگ لپیٹ کے بغیر لکھنے کی دعوت پڑھی، تو یقین مانیے، یوں لگا، جیسے ’’گوہرِ مُراد‘‘ مل گیا۔
دراصل مجھے اس میں شائع ہونے والی ’’خود نوشت‘‘ نےازحد متاثر کیا ہے۔ اِس سےقبل مجھے ذوالفقار چیمہ کی ایک بہت ہی یادگار اور پُراثر تحریر، جو اُنہوں نے اپنی والدہ محترمہ کے وصال پر تحریر کی تھی اور غالباً جس کا عنوان تھا ’’اب کون ہوگا، بےقرار میرے لیے‘‘ پڑھنے کا اتفاق ہوا تھا۔ بخدا اُس تحریر نے مجھے رُلا دیا تھا۔ بہرحال، چیمہ صاحب انتہائی ایمان داری کے ساتھ اپنے بچپن اور جوانی کے واقعات، شرارتیں قارئین کی نذر کررہے ہیں اور میرے خیال میں تو یہ اُن کا بڑا پن اور کردار کی عظمت ہی ہے۔
اللہ تعالیٰ انہیں سلامت باکرامت، سدا سرسبز و شاداب رکھے۔ دوسرا مضمون، جس نے بے حد متاثر کیا، وہ تھا، ’’انجینئرنگ کی ہونہار طالبات‘‘۔ بندۂ ناچیز چوں کہ خُود بھی میکنیکل انجینئرنگ کا طالب علم ہے، تو اِس مضمون سے خُوب ری لیٹ کیا۔ واقعی انجینئر طالبات کے بارے میں جوکچھ لکھا گیا، سو فی صد درست تھا۔
معذرت کے ساتھ، وہ عرصہ چار سال میں صرف نالج ہی سیکھ پاتی ہیں، اِسکلز سے اُن کا دُور دُور کا بھی واسطہ نہیں ہوتا۔ وہ کیا ہے کہ لڑکیوں کے پاس بڑا نازک سا دل ہوتا ہے اور ؎ ہے دل کے لیے موت، مشینوں کی حکومت (’’تعلیم‘‘)۔
ہاں، اگر لڑکیوں کو انجینئرنگ کی طرف آنا ہی ہے، تو اُن کے لیے سول انجینئرنگ، آرکٹیکچر، ٹاؤن پلاننگ، الیکٹرانکس اور کمپیوٹر سائنس صحیح شعبہ جات ہیں۔ آپ کا ’’فیچر‘‘ بھی میری توجّہ کا مرکز رہا۔ ’’جبری مشقّت کے شکار بچّے‘‘ پڑھ کر تو مَیں حیران و پریشان ہوگیا کہ وطنِ عزیز پاکستان میں ایک کروڑ سے زائد کم سِن بچے لیبر فورس کی شکل میں جبری مشقّت کے شکار ہیں۔
آخری بات، بلکہ سچّی بات تو یہ ہے کہ اِن کے علاوہ ’’سنڈے میگزین‘‘ کے دیگر مضامین بس سرسری نگاہ ہی سے دیکھے۔ بہرحال، اِس منہگائی کے دَور میں یہ چند صفحات پر مشتمل رنگارنگ پھولوں کا گلدستہ دل وجان کو خُوب بھایا۔ اللہ کرے، سلسلہ چلتا رہے۔ ادارے سے وابستہ افراد کو عافیت، خوش حالی اور سکونِ قلب کے ساتھ ہنستی، مُسکراتی لمبی زندگی عطا ہو۔ (حافظ عُمر عبدالرحمٰن ڈار، شیخوپورہ)
ج: چوں کہ تحریر انجینئرنگ کی ایک طالبہ ہی کی تھی، تو بےچاری بچّی نے کچھ سوچ سمجھ کر ہی لکھی ہوگی۔ ویسےانجینئرنگ کے طالبِ علم ہوتے ہوئے آپ کا نہ صرف خط، بلکہ خط ( ہینڈ رائٹنگ) دونوں کمال ہیں۔ بلاشبہ آپ نے متاثر کیا۔
* اُمید ہے کہ آپ سب بخیرہوں گے۔ 4 اگست کے شمارے میں ’’پرانے نامہ نگار بشمول بندہ کے، حاضر ہوں‘‘کی چاہت بَھری صدا سُنی، اور جواب میں آپ کا یہ جملہ ’’کہ شاید یہ جانے والے اب رسالہ پڑھتے بھی ہیں کہ نہیں؟‘‘ تو فوراً ہی بزم میں یہ ای میل کررہا ہوں کہ’’ایک تھا راجا‘‘ والی بات ہرگز نہیں بلکہ ہنوز ’’ایک ہے راجا‘‘۔ سب دوستوں کا یادرکھنےکا بہت شکریہ۔ دُعا ہے کہ سبھی احباب شاد رہیں اور مدیرہ صاحبہ، اُن کی ٹیم اور ادارۂ جنگ مستحکم آباد رہے۔ (محمّد سلیم راجا، لال کوٹھی، فیصل آباد)
ج: تو مطلب، اب ای میل نگاری ہی ہوگی۔
* میرے افسانہ قابلِ اشاعت نہیں ٹھہرا۔ مَیں نے تو بس بےزبان قیدی پرندوں کی آزادی کی ایک کوشش کی تھی کہ یہ میرے اپنے بچپن کا قصّہ تھا۔ چلیں، کوئی بات نہیں۔ پھر کسی موضوع پر کچھ لکھنے کی کوشش کروں گی۔ میگزین میں طوسی کے بعد رومی کی باری تھی۔ بہت شان دار، بھئی واہ! شادی بیاہ کے مسائل پر رؤف ظفر نے بڑی عُمدہ تحریر رقم کی۔
ویسے میری شادی بھی بہت سادگی سے ہوئی تھی۔ نہ کوئی جیہز، پارلر، نہ کوئی فوٹو شوٹ۔ گھر میں سادگی سے نکاح اور بس۔ لوگوں نے طعنے بھی دیئے، لیکن میرے گھر والوں نے پروا نہیں کی۔ ’’اسٹائل‘‘ کی ماڈل کے چہرے کا تاثرات بہت عجیب تھے۔ ڈریسز بھی کچھ خاص نہیں لگے۔
پیارا گھر میں مختلف ابٹنز کی تراکیب دی گئیں، جب کہ میرا خیال ہےکہ منہ پر لیپا پوتی کے بجائے اگر پیٹ میں کچھ اچھاجائے تو زیادہ فائدہ ہوتا ہے۔ اور یانا فلاسی پہ لکھی تحریر بہت پسند آئی۔ ’’آگے آگے میں، پیچھے پیچھے بکرا‘‘ اگر بقر عید ایڈیشن میں شایع ہوتی، تو اچھا ہوتا۔ اور خضرالحیات سے درخواست ہے کہ ’’گوشۂ برقی خطوط‘‘ کو ہم جیسے پردیسیوں کے لیے چھوڑ دیں پلیز۔ (قرات نقوی،ٹیکساس، امریکا)
ج: مبارک ہو، تمھاری دوسری تحریر قابلِ اشاعت ہے، ان شاءاللہ تعالیٰ جلد ہی جریدے کی زینت بن جائے گی۔
قارئینِ کرام کے نام !
ہمارے ہر صفحے ، ہر سلسلے پر کھل کر اپنی رائے کا اظہار کیجیے۔ اس صفحے کو، جو آپ ہی کے خطوط سے مرصّع ہے، ’’ہائیڈ پارک‘‘ سمجھیے۔ جو دل میں آئے، جو کہنا چاہیں، جو سمجھ میں آئے۔ کسی جھجک، لاگ لپیٹ کے بغیر، ہمیں لکھ بھیجیے۔ ہم آپ کے تمام خیالات، تجاویز اور آراء کو بہت مقدّم ، بے حد اہم، جانتے ہوئے، ان کا بھرپور احترام کریں گے اور اُن ہی کی روشنی میں ’’سنڈے میگزین‘‘ کے بہتر سے بہتر معیار کے لیے مسلسل کوشاں رہیں گے۔ہمارا پتا یہ ہے۔
نرجس ملک
ایڈیٹر ’’ سنڈے میگزین‘‘
روزنامہ جنگ ، آئی آئی چندریگر روڈ، کراچی
sundaymagazine@janggroup.com.pk