معاشی طور پر 2023ءپاکستانیوں کیلئے ایک مشکل ترین سال تھا مگر 2024ءمیں مسلم لیگ (ن) اور پیپلزپارٹی کی مخلوط حکومت نے معیشت کی بحالی اور سیاسی استحکام کیلئے اہم فیصلے کئے جس سے ملکی معیشت میں بہتری آئی۔ 2023ءمیں افراط زر یعنی مہنگائی بڑھکر 38فیصد کی سطح پر پہنچ گئی تھی جو 2024 میں کم ہوکر 4سے 5فیصد کی سطح پر آگئی لیکن عوامی رائے ہے کہ اگر مہنگائی میں 600 فیصد کمی آئی ہے تو کھانے پینے کی اشیاء اور بجلی، گیس کی قیمتوں میں بھی 6 گنا کمی ہونا چاہئے۔ 2024 میں افراط زر میں کمی سے اسٹیٹ بینک کا پالیسی ریٹ 22 فیصد سے کم ہوکر 13 فیصد پر آگیا اور شرح سود کم ہونے کی وجہ سے بینکوں سے نجی شعبوں کے قرضوں میں ریکارڈ اضافہ دیکھنے میں آیا، کرنٹ اکائونٹ خسارہ 10 سال بعد 730 ملین ڈالر سے سرپلس رہا، زرمبادلہ ذخائر میں تقریباً 4 ارب ڈالر کا اضافہ ہوا جو بڑھ کر 16 ارب ڈالر ہوگئے جس میں 4 ارب ڈالر کمرشل بینکوں کے ڈپازٹس ہیں، روشن ڈیجیٹل اکائونٹ (RDA) میں سرمایہ کاری جو جنوری 2024 میں 7.1ارب ڈالر تھی، نومبر 2024 میں بڑھ کر 9.1 ارب ڈالر تک پہنچ گئی جبکہ رواں مالی سال کے اختتام تک 35 ارب ڈالر کی ریکارڈ ترسیلات متوقع ہیں۔ 2023میں ڈالر 300 روپے سے تجاوز کرگیا تھا مگر 2024ءمیں 278روپے پر مستحکم رہا، پاکستان اسٹاک ایکسچینج میں ریکارڈ سرمایہ کاری ہوئی اور انڈیکس ایک لاکھ 18 ہزار کی بلند سطح پر پہنچ گیا۔ اسی طرح رواں مالی سال کی پہلی ششماہی میں ملکی ایکسپورٹ 16.56 ارب ڈالر اور امپورٹ 27.73ارب ڈالر رہیں جبکہ تجارتی خسارہ 11.17ارب ڈالر رہا۔ 2024ءکا بڑا معرکہ IMF کیساتھ 7ارب ڈالر کے 3 سالہ نئے قرض پروگرام کی منظوری تھی جس کی 1.2ارب ڈالر کی پہلی قسط پاکستان کو دی جاچکی ہے۔ IMF کے علاوہ ایشیائی ترقیاتی بینک، ورلڈ بینک، نیا پاکستان سرٹیفکیٹ، امریکہ، چین اور فرانس سے جولائی سے نومبر 2024ءتک قرض اور بیرونی امداد کی صورت میں تقریباً 3 ارب ڈالر موصول ہوئے جو 2023 کے مقابلے میں 40فیصد کم ہیں۔ رواں مالی سال کے دوران پاکستان کو اب تک مجموعی 24 ارب ڈالر کی بیرونی امداد ملی ہیں جس میں چین، سعودی عرب اور UAE کے 12ارب ڈالر کے رول اوور قرضے بھی شامل ہیں۔ حکومت نے بجٹ میں 1761 ارب روپے کے اضافی ٹیکسز لگائے، 450 ارب روپے کی ٹیکس چھوٹ ختم کی گئی، صنعتی سیکٹر سے 150ارب روپے کی کراس سبسڈی ختم کردی گئی، تنخواہ دار طبقے پر 75 ارب روپے کا اضافی بوجھ ڈالا گیا اور 71 لاکھ سے زائد تاجروں کو ’’تاجر دوست اسکیم‘‘ کے تحت ٹیکس نیٹ میں لانے کا ہدف رکھا گیا ہے۔ IMF نے 2024-25 میں GDP میں ٹیکس کی شرح کا ہدف 10.6 فیصد دیا تھا جو حاصل ہوگیا ہے جبکہ FBR کو رواں مالی سال 12970 ارب روپے ٹیکس وصولی کا ہدف دیا گیا ہے جو گزشتہ مالی سال سے 40 فیصد زائد ہے اور جولائی سے دسمبر 2024 تک FBR کو 386 ارب روپے کے ٹیکس شارٹ فال کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ ریٹائرڈ سرکاری ملازمین کو دی جانے والی پنشن 1014 ارب روپے سالانہ سے تجاوز کرچکی ہے تاہم IMF اور ورلڈ بینک کے مطالبے پر ریٹائرڈ ملازمین کی ڈبل پنشن سہولت ختم کردی گئی ہے یعنی اب وہ صرف ایک ادارے سے پنشن لینے کے مستحق ہونگے۔ 2024 میں خسارے میں چلنے والے حکومتی ادارے پی آئی اے، اسٹیل ملز، ریلوے اور بجلی سپلائی کرنے والی کمپنیاں ڈسکوز جنہوں نے گزشتہ 10 سالوں میں 6000 ارب روپے کے نقصانات کئے، کی نجکاری حکومت کیلئے بڑا چیلنج رہے جس کی مثال پی آئی اے کی ناکام نجکاری ہے تاہم آئی پی پیز سے مذاکرا ت کے مثبت نتائج حاصل ہوئے اور 5 آئی پی پیز کے معاہدے منسوخ جبکہ 14 آئی پی پیز کیپسٹی چارجز کے بجائے ٹیک اینڈ پے پر منتقل کردیئے گئے ہیں جس کے باعث جون 2024سے صنعتی صارفین کے ٹیرف میں 11.33 روپے فی یونٹ کمی کی گئی اور اب صنعتی ٹیرف 47.17 روپے فی یونٹ ہوگیا ہے لیکن صنعتوں کا مطالبہ ہے کہ انہیں خطے میں دیگر ممالک کی طرح 9 سینٹ (26 روپے) فی یونٹ بجلی سپلائی کی جائے۔ پاکستان کو معاشی ترقی کیلئے 6 فیصد GDP گروتھ درکار ہے لیکن 4 فیصد گروتھ کے بعد ہمارا امپورٹ بل بڑھ جاتا ہے جس سے زرمبادلہ ذخائر میں کمی، روپے کی قدر پر دبائو اور افراط زر میں تیزی سے اضافہ ہوتا ہے جس کے باعث اسٹیٹ بینک کو امپورٹ LCs پر پابندیاں لگانی پڑتی ہیں جس کے نتیجے میں معاشی گروتھ میں کمی آتی ہے لہٰذا ہمیں ایکسپورٹ گروتھ پر توجہ دینا ہوگی۔ چھوٹے اور درمیانے درجے کی صنعتیں ملکی معیشت میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہیں، مجھے خوشی ہے کہ وزیراعظم پاکستان نے SMEs کے فروغ کیلئے عالمی ماہرین کی خدمات حاصل کی ہیں تاکہ SMEs کو گلوبل سپلائی چین کا حصہ بنایا جاسکے۔ وزیراعظم نے ملکی معاشی ترقی کیلئے 5 سالہ ’’اڑان پاکستان پروگرام‘‘ متعارف کرایا ہے جس میں 2025ءسے 2029ءتک 5Es کے ذریعے GDP کا حجم 1000ارب ڈالر، ایکسپورٹ 60ارب ڈالر اور بیرونی سرمایہ کاری کا ہدف 10ارب ڈالر رکھا گیا ہے جس میں آئی ٹی اور زرعی شعبے ترجیحی سیکٹرز ہیں۔ میری حکومت کو تجویز ہے کہ آئی ٹی ایکسپورٹ بڑھانے کیلئے انٹرنیٹ مسائل جلد از جلد حل کئے جائیں تاکہ آئی ٹی سیکٹر کی کارکردگی متاثر نہ ہو۔