دوست شکایت کرتے ہیں کہ درویش کی تحریر پڑھنے کے لئے لغت کی ضرورت پیش آتی ہے اور بعدازاں سر پر روغن بادام سے مالش کروانا پڑتی ہے۔ حقیقت میں ایسا کچھ نہیں۔ احباب باقاعدہ کڑھے ہوئے عالم ہیں۔ زبان کا آسان یا مشکل ہونا ان کا مسئلہ نہیں۔ البتہ کبھی کبھار کوئی رائے توسن طبع پر گراں گزرے تو ازرہ تواضع زبان پر تنقید کے پردے میں اپنے اختلاف کا اظہار کرتے ہیں۔ ’تم زمانے کی راہ سے آئے / ورنہ سیدھا تھا راستہ دل کا۔‘ یہ ضرور ہے کہ بندہ کم مایہ اسی دیس کے گلی کوچوں میں پیدا ہوا لہٰذا اسے خود کو ’ڈی کلاس‘ کرنے کے لئے ’تھڑے کی زبان‘ میں دلچسپی نہیں۔ مشاہدہ یہ ہے کہ ذرائع ابلاغ پر ’عوامی زبان‘ رائج کرنے والے خود تھڑوں سے اٹھ کر عالیشان بستیوں میں پہنچ گئے مگر ہمارے سیاسی اور تمدنی مکالمے کو گالی، دشنام سے آلودہ کر دیا۔ صاحب، یہ بیان تو پھر سے تلخ و ترش راستوں کی طرف بڑھ رہا ہے۔ مجھے تو آج زندگی کے کچھ احسانات بیان کرنا ہیں۔
ہم نے اس ملک کا مطالبہ اس بنیاد پر کیا کہ ہم دوسرے گروہوں کیساتھ مل جل کر رہنے کو ناقابل عمل سمجھتے تھے۔ اپنا ملک ہم نے بنا لیا مگر ہماری سیاست تو معیشت، علم، ترقی اور تمدن وغیرہ پر غور کرنے کی بجائے خوردبین کی مدد سے اختلافی لکیریں ڈھونڈنے پر استوار ہوئی تھی۔ بہت جلد ہم نے زبان، عقیدے ، ثقافت اور سیاسی رائے کی بنیاد پر باہم گروہ بندیاں کر لیں ۔ آج اس کا گریبان پکڑا، کل کسی دوسرے پر چڑھ دوڑے۔ غدار، بدعنوان اور نااہل کے القاب اس فراوانی سے استعمال کیے کہ کسی مفروضہ مخالف کی ممکنہ خوبیاں جاننے اور تسلیم کرنے کازاویہ ہی اوجھل ہو گیا ۔ درویش نے بھی اسی دھینگا مشتی میں آنکھ کھولی۔ ہماری دف کے سب پہلوان رستم زماں تھے اور جو ہماری طرح نہیں سوچتا تھا، وہ مجسم برائی تھا۔ پھر تجربے اور مشاہدے نے عجیب رنگ دکھایا۔ تاریخ کی پیچ دار گلیوں سے گزرتے ہوئے کچھ ایسی کایا کلپ ہوئی کہ جن کا نام لینا تلخ کامی کے مترادف تھا، وہ دل و جان سے عزیز ہو گئے۔
ستر کی دہائی میں انتظار حسین کو قدامت پسنداور رجعت پسند ادیب سمجھتا تھا۔ اس میں انتظار حسین کے فکشن سے زیادہ ان کی تنقید کو دخل تھا۔ جملہ وہ بھی بہت تیکھا لکھتے تھے۔ ادھر یہ معاملہ تھا کہ ہر طنزیہ جملہ گویا دل میں ترازو ہو گیا۔ اور پھر انتظار صاحب کے ایک جملے نے دنیا بدل دی۔ فرمایا ’پہلے مجھے سوشلسٹوں سے خوف آتا تھا اور اب ملائوں سے ڈر لگتا ہے‘۔ انتظار حسین کی دریافت شروع ہوئی تو معلوم ہوا کہ انتظار حسین تو ایک اور ہی دنیا کے آدمی ہیں۔ انہیں ترقی پسند ادیبوں کے اکہرے پن اور نیت باندھ کر خاص نقطہ نظر کی ترویج کرنے والے ادب سے کوفت ہوتی تھی۔ انتظار حسین کو اس آنکھ سے پڑھنا شروع کیا تو دل میں اترتے چلے گئے۔ اب میں سمجھتا ہوں کہ قیام پاکستان کے بعد کسی ادیب نے انتظار صاحب سے بڑھ کر اجتماعی تجربے سے جڑا ہوا بہترین ادب تخلیق نہیں کیا ۔ بعد میں ان سے ذاتی شفقت بھی نصیب ہوئی مگر خوشی یہ تھی کہ انتظار حسین کی شہرت سے مرعوب نہیں ہوئے ، انہیں تنقیدی آنکھ سے پڑھ کر قبول کیا ہے۔
نوجوانی کے کچے پن میں عطاالحق قاسمی نہایت ناپسندیدہ کالم نگار تھے۔ سچ تو یہ ہے کہ ان کی تحریر کی خوبیوں تک آنکھ کیسے پہنچتی ، وہ ہر تحریر میں کوئی ایسا نشتر رکھ دیتے تھے کہ مہینوں چبھن محسوس ہوتی تھی۔ مشرف آمریت کا ظہور ہوا تو عطاالحق قاسمی نے تیرہ و تاریک عہد میں ایسی استقامت دکھائی کہ اہل درد کو ’کشمیریوں‘ نے لوٹ لیا۔ ہم نے جانا کہ وہ اپنا مشاہدہ لکھتے تھے اور ہماری رائے ہماری نسل کی آپ بیتی تھی۔ یہ نظر کے زاویے ہیں ۔ اس میں قطعیت کی جستجو محض سادہ لوحی ہے اور پھر ایک ایسا وقت بھی آیا کہ دوست احباب نے عطاالحق قاسمی کو خوشامدی قرار دیا۔ کوئی حرج نہیں۔ خوشا ایسی خوشامد جو تاریخ کی بھٹی سے کشید کی گئی ہو۔
مجیب الرحمٰن شامی کو کون نہیں جانتا۔ پچپن برس پر محیط ان کی صحافت میں ناقابل فراموش ابواب بھی ہیں اور کہیں کہیں پانی بھی مرتا ہے۔ بندہ کم مایہ کو شامی صاحب نے 1998 ء میں تب جیت لیا جب انہوں نے مقبول عام رائے سے ہٹ کر کھلے بندوں تجویز دی کہ پاکستان کو ایٹمی دھماکے نہیں کرنا چاہئیں۔ یہاں سے دریافت کا ایک سفر شروع ہوا۔ غائبانہ تعصب سے وہ اختلاف بہتر ہے جسے رو در رو بیان کیا جائے۔ میں انہیں استاذی مجیب الرحمن شامی کہتا ہوں تو پرانے احباب ہنسی اڑاتے ہیں۔انہیں خبر نہیں کہ شامی صاحب سے شرف تلمذ میں استاد کی تادیب اور بزرگ کی شفقت بھی شامل ہے۔ دلیل کے دائرے میں اختلاف اب بھی ہوتا ہے لیکن بات تلخ نہیں ہوتی۔
ڈیڑھ دہائی پہلے درویش کو اس ادارتی صفحے پر جگہ ملی تو عرفان صدیقی صاحب نصف النہار پر تھے۔ درویش بھی جوالا مکھی کیفیت میں تھا۔ صدیقی صاحب اشارے کنائے میں درویش کو ’شوخ چشم‘ لکھا کرتے تھے۔ رائے کا حق سب کو ہے اور اس حق میں اختلاف کا حق بھی شامل ہے۔ پھر 2018 ء ہو گیا۔ سیاسی عمل کی خوبصورتی ہی یہ ہے کہ اپنے ہم وطنوں کی قامت آزمائش کی گھڑی میںکھلتی ہے۔ ’جبر کی رات میں کھلے دن مرے اختیار کے‘۔صدیقی صاحب ان دنوں ایوان بالا کے رکن ہیں ہم لیکن اس عرفان صدیقی کو جانتے ہیں جس نے ہتھکڑیوں میں جکڑے ہاتھوں سے قلم بلند کیا تھا۔ میں نے چار ہستیوں کا ذکر کیاجن کے بارے میں رائے عناد ، غیر جانبداری اور مکالمے کی منزلوں سے گزرتی ہوئی احترام تک پہنچی۔ سیاسی اختلاف میں کچھ غلط فہمی ہوتی ہے اور کچھ معاشرتی ارتقا کا ناگزیر تقاضا۔ اہم بات یہ ہے کہ اختلاف کو ذاتی دشمنی سمجھنے کی بجائے دوسروں کا حق رائے سمجھتے ہوئے اس کا احترام کیا جائے۔ اپنی رائے پر قائم رہنے کیلئے دوسروں کی توہین لازم نہیں۔آنکھیں بند کر کے لگایا ہوا نعرہ تنقیدی شعور ہی کو کند نہیں کرتا ، سیاسی ارتقا کی راہیں بھی مسدود کر دیتا ہے۔