ریناڈا کی پہاڑیوں میں سرخ پتھروں سے بنا ہوا محل جسے الحمرا کہتے ہیں، اسلامی فن تعمیر کا حسین نمونہ ہے۔ اس کی لال لال فصیلیں سیرا نیواڈا کی برف سے ڈھکی چوٹیوں کے پس منظر میں جب چمکتی ہیں تو روح حسن و جمال سے بھر جاتی ہے۔ محل کی دیواروں پر نقش و نگارآرٹ کا شاہکار ہیں، خوبصورت محرابیں اور پُرسکون صحن، سکون اور اسرار کے احساس کو جنم دیتے ہیں، چشموں کی ہلکی ہلکی آواز اور سورج کا پڑتا ہواسایہ اپنی ایک کہانی سناتا ہے۔ باغات میں جھولتے ہوئےپھولوں اور لیموں کے درختوں کی خوشبو اندلس کی گرم ہوا میں گھل گھل جاتی ہیں۔ کمروں، آنگنوں اور میناروں کی گھومتی ہوئی زینہ زینہ چڑھتی سیڑھیوں کی خوبصورتی اقبال کی نظم ’’قرطبہ‘‘ کی طرح کھلتی ہے، ہرطرف کھوئی ہوئی تہذیب کی بازگشت سنائی دیتی ہے الحمرا ثقافت، طاقت اور اسلامی آرٹ کے سنہری دور کی ایک مکمل تصویر ہے مگر ایک الحمر اور بھی ہے۔ یہ پاکستان میں تہذیب و ثقافت کا گہوارہ ہے۔ مال روڈ پر یہ جدید اور کلاسیکی امتزاج کی سرخی مائل عمارتوں کا مجموعہ کسی شاعری کے دیوان سے کم نہیں۔ یہ عمارت پاکستان میں فنون لطیفہ کیلئے ایک روشنی کی حیثیت رکھتی ہے۔ باہر سے اپنی صاف ستھری لکیروں اور وسیع شیشے کی کھڑکیوں کے ساتھ، کھلے پن اور شفافیت کا احساس دلاتی ہے اور اندر سے تخلیقی دنیا کے نت نئے رنگ دکھاتی ہے۔ مرکزی ڈھانچے کا موازنہ اکثر مرصع فن تعمیراتی طرزوں اور روایتی نقشوں کے امتزاج سے کیا جاتا ہے، جس میں ٹیرا کوٹا کی تفصیل اور محراب جیسے عناصر کلاسیکی مغلیہ اور نو آبادیاتی اثرات کو جنم دیتے ہیں جنہوں نے شہر کی شناخت کو تشکیل دیا ہے۔ الحمرا آرٹ کونسل کےاس وسیع و عریض کمپلیکس کو آرٹ کی نمائشوں سے لے کر تھیٹر پرفارمنس اور کلاسیکی موسیقی کے کنسرٹس تک مختلف ثقافتی تقریبات کی میزبانی کیلئے ڈیزائن کیا گیا ہے۔ اس میں پہلی تقریب انیس سو انچاس میں عبدالرحمن چغتائی کی پیٹنگ کی نمائش تھی۔ فیض احمد فیض اس کے پہلے سیکریٹری تھے۔ البتہ عمارت کی تعمیر میں اہم ترین کردار نعیم طاہر نے ادا کیا تھا۔ عمارت کا ڈیزائن نئیر علی دادا نے بنایا تھا۔ الحمرا پر کچھ لکھنے کا خیال دراصل کچھ یوں آیا کہ میں پچھلے دنوں تین مر تبہ الحمرا گیا۔ اب کے وہ مجھے عجب طرح سے آباد دکھائی دیا۔ پہلی تقریب جشن اقبال کی تھی۔ دوسری تقریب صوفی فیسٹیول تھی۔ اس میں صوفی آرٹ اینڈ کرافٹ، نمائش، صوفی خطاطی، صوفی گائیکی، پینل ڈسکشن، رقص، صوفی مشاعرہ، سماع، صوفی خانقاہ سمیت دیگر تقریبات کا اہتمام کیا گیا۔ اس کیلئے سیکریٹری اوقاف طاہر رضا بخاری بھی قابلِ داد ہیں کہ انہوں نے ایسا زبردست فیسٹیول کرایا۔ تیسری مرتبہ وہاں گیا تو وہاں ماحولیات کے موضوع پر ڈرامہ ہو رہا تھا۔ ”دھرتی ماں“۔ الحمرا میں طویل عرصہ کے بعد ایسا ڈرامہ دیکھنے کو ملا۔ اس کے پیچھے مجھے سیکریٹری ماحولیات راجہ جہانگیر انور کی خوش دماغی دکھائی دی۔ بے شک وہ ایک جینئس آدمی ہیں مگر سب سے زیادہ داد الحمرا کے نئے ایگزیکٹو ڈائریکٹر تو قیر حیدر کے لئے۔ انکی شخصیت میں ذمہ داریوں سے مکمل طور پر عہدہ برا ٓہونے کا جو جوش اور ولولہ ہے وہ ناقابل بیان ہے۔ الحمراء آرٹس کونسل کیلئے ان کی آمد نیک شگون ثابت ہوئی ہے۔ ان سے بڑی اچھی ملاقات ہوئی۔ وہ الحمراء کو جدید خطوط پرا ستوار کرنے کیلئے نہایت پُرعزم ہیں اور خاطر خواہ نتائج برآمد کرنے پریقین رکھتے ہیں۔ الحمرا میں ادبی سرگرمیاں پھر سے شروع ہیں۔ ادبی بیٹھک آباد ہو رہی ہے۔ موسیقی کے معیاری پروگرامز کرائے جا رہے ہیں، نوجوانوں کی شرکت میں اضافہ ہوا ہے، الحمراء کی سوشل میڈیا ٹیم کو فعال اور متحرک کیا گیا ہے۔ آج کل داستان گوئی تین روزہ فیسٹیول شروع ہے۔ یعنی مرتی ہوئی روایات کو زندہ کرنے کا عظیم کام جاری ہے۔ پچھلے ہفتے افکار تازہ۔ تھینک فسٹ کے عنوان سے ہونے والے مکالمے اور مباحثے بھی بہت شاندار تھے۔ عائشہ جلال اور رضا رومی کے درمیان مکالمہ کہ کیا مسلمان روشن خیال ہو سکتے ہیں۔ بڑی دلچسپی سے سنا گیا۔ اس موضوع پر ایک دفعہ میرا منو بھائی سے مکالمہ ہوا تھا۔ یہ ان دنوں کی بات ہے میں جب میں نے اپنا پہلا نعتیہ مجموعہ ’’آفاق نما‘‘ کا مسودہ منو بھائی کو دیا اور پوچھا کہ کیا آپ اس پر کچھ لکھ سکتے ہیں تو انہوں نے کہا ’’کیوں نہیں‘‘۔ میں نے کہا ’’آپ ایک معروف ترقی پسند ہیں اور یہ ایک نعتیہ مجموعہ ہے تو کہنے لگے ’’اسلام ایک ترقی پسند مذہب ہے افسوس کہ ملا نے اس کے خدوخال بگاڑ دئیے ہیں۔ پھر میں نے تمہاری کچھ نعتیں سنی ہیں۔ وہ پوری طرح ایک ترقی پسند شاعر کی لکھی ہوئی نعتیں ہیں۔‘‘ پھر انہوں نے مجھے احمد فراز کی نعت کا یہ شعر سنایا تُو روشنی کا پیمبر ہے اور مری تاریخ بھری پڑی ہے شبِ ظلم کی مثالوں سے۔ گزشتہ روز منو بھائی کی ساتویں برسی تھی۔ سندس فاونڈیشن میں برسی کی تقریب بڑے اچھے انداز میں ہوئی۔ اس کیلئے یاسین خان کو ہدیہ تبریک۔ اس میں بہت سے اہل قلم کے علاوہ سپیکر پنجاب اسمبلی ملک محمد احمد خان اور خواجہ سلمان رفیق بھی شریک ہوئے۔