• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

السّلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ

پسندیدہ ترین کتب اور مصنفّین

ہماری پچھلی تحریر ’’اس ہفتے کی چٹھی‘‘ کا اعزاز پا گئی، تو یقین کریں، ایسی خوشی ہوئی، جیسی بچپن میں رزلٹ والے دن فرسٹ آنے پر ہوتی تھی۔ ویسے اسماء خان دمڑ نے بجا کہا کہ اگر آپ ہمارے خطوط کی نوک پلک نہ سنواریں، تو ہم کبھی سندیافتہ چٹھی کےحق دار نہ ٹھہریں۔ اتنے عرصے بعد اسماء کی دھماکے دار اینٹری سے مزہ آگیا۔ اب دوبارہ غائب نہ ہو جانا بہن! اللہ سے دُعا ہے کہ شائستہ اظہر بھی جلد قدم رنجہ فرمائیں۔ مَیں ’’آپ کا صفحہ‘‘میں سب سے پہلے خطوط لکھنے والوں کے نام پڑھتی ہوں کہ آج کس کس کی حاضری لگی۔ 

ضیاءالحق نے تو مابدولت کو ’’شائستہ اظہر جونیئر‘‘ کہہ کر حیران ہی کردیا۔ بھئی، مجھے ابھی اُن تک پہنچنے کے لیے بہت محنت اور وقت درکار ہے۔ پچھلے دنوں مصروفیت بہت رہی، تو آج اکتوبر کے سارے میگزین نکال کے پڑھنے بیٹھی ہوں اور سوچ رہی ہوں کہ کس شمارے پر تبصرہ کروں۔ چلیں، مجموعی طور پر سب ہی پرکر دیتی ہوں۔ سب سے پہلے تو یہ جو آب نے ’’خود نوشت‘‘ کا سلسلہ شروع کیا ہے، یہ ’’ناول‘‘ سے لاکھ درجے بہتر ہے۔ 

اِس طرح کی تحریریں پڑھ کر ہم جیسے آج کل کے والدین کی تربیت بھی ہوتی ہے کہ ہم اپنے بچّوں کی کن خطوط پر تربیت کرکے اُنہیں مثالی انسان بنا سکتے ہیں اور دوسری طرف یہ اندازہ بھی کہ ہم جو آج کل اتنی آسائشوں کے باوجود ہر وقت روناہی روتے رہتے ہیں، پچھلے دَور کے لوگ انتہائی محنتی وجفاکش ہونےکےباوجود کس قدر متشکر ہوتےتھے۔ پلیز، یہ سلسلہ اب جاری ہی رکھیے گا۔ حافظ محمّد ثانی نے ’’مسجد‘‘ کے موضوع پر گراں قدر معلومات فراہم کیں۔ 

ہمارا تو یہ حال ہے کہ اب مساجد میں’’برائیڈل فوٹو شوٹس‘‘ کروائے جا رہے ہیں۔ مولانا بشیر فاروق قادری کی’’گفتگو‘‘بھی سیرحاصل تھی۔’’ناقابل فراموش‘‘ میں رضیہ بانو کی تحریر نے توغمگین ہی کر دیا۔ ’’حالات و واقعات‘‘ میں حسن نصراللہ کی شہادت پرمضمون شائع کیا گیا، اس سے قبل اسماعیل ہانیہ کی شہادت ہوئی۔ شہید ہونے والے تو بےشک اپنی منزل پاگئے، لیکن مسلم اُمہ آخر کب ان درندوں کےخلاف سینہ سپر ہوگی، یہ سوچنے والی بات ہے۔ واقعی بہت کڑا امتحان ہےاہلِ فلسطین کا، لیکن اجر بھی بے پایاں ہے۔

اللہ پاک خانۂ غیب سے اُن کی مدد فرمائے کہ مسلمان حُکم رانوں سے تو کوئی اُمید نہیں۔ نواب محمد اسلم خان رئیسانی کی ’’گفتگو‘‘ اچھی اور کھری تھی۔ ویسے مجھے اِنہیں دیکھ کر ’’خواجہ اینڈ سنز‘‘ ڈرامے کے اباجی یاد آجاتے ہیں۔ مُلکی معیشت پر کیا اظہارِ خیال کروں، مقتدروں کو لگتا ہے، ہمارےگھروں میں پیسوں کےدرخت لگےہیں، کیوں کہ اتنے بھاری بھرکم یوٹیلٹی بلزحق حلال کی کمائیوں سے تو ادا ہو نہیں سکتے۔ 

یہ خُود 75 سال سے مُلک کو لوٹ کرکھارہےہیں اور عوام کو پیٹ پر پتھر باندھنے کا مشورہ دیتے ہیں۔ بخدا مَیں نے تو اب نیوز سُننی ہی چھوڑ دی ہیں۔ عجیب ٹینشن ہوتی ہے۔ ایسا لگتا ہے، ہم سب گھاس کھاتے ہیں۔ ذوالفقار چیمہ کا نام پڑھتے ہی میرے ذہن میں  مصنفہ ’’جبیں چیمہ‘‘ کا خیال آیا تھا کہ ذوالفقار صاحب محترمہ کے بھائی ہیں اور اب اس شمارے میں انہوں نے تصدیق بھی کردی(دراصل جبیں چیمہ کا خواتین کے رسالے میں انٹرویو شائع ہوا تھا، جس میں انہوں نے بتایا تھاکہ اُن کے ایک بھائی پولیس میں ہیں۔) 

ویسے جبیں چیمہ نےخوب پکڑا، خواجہ صاحب کو۔ فاطمہ شکیل کی تحریر ’’فرضِ عین‘‘ اچھی کاوش تھی۔ مَیں خود بھی ان باتوں کا بہت خیال رکھتی ہوں۔ چلیں، نرجس جی! آج کے لیے اتنا ہی۔ جاتے جاتے ایک سوال، ماناکہ آپ کا انٹرویو دینا، ادارے پالیسی کے خلاف ہے، لیکن وہ کیا ہے ناں کہ جب کوئی اتنا اچھا لکھتا ہے، تو یقیناً اُس کا مطالعہ بھی وسیع ہوگا اور معیار بھی۔ خصوصاً یہ جو آپ اتنے برجستہ جوابات دیتی ہیں اور ہر ہفتے’’سینٹر اسپریڈ‘‘ پر ایک شاہ کاررقم کرتی ہیں، تو پلیز، صرف یہ بتادیں کہ آپ کی پسندیدہ ترین کتب اور مصنفین کون کون سے ہیں۔ پلیز، سوال گول نہ کیجیے گا۔ (زلیخا جاوید اصغر)

ج: ہمیں بے شمار لکھاریوں کی بے شمار نگارشات پسند ہیں، لیکن کسی ایک مصنّف یا شاعر کی ہر تحریر یا ہر کلام ہی پسند ہو، ایسا بالکل نہیں ہے۔ سو، یہ بتانا بھی بہت مشکل ہے کہ فلاں ہمارا پسندیدہ ترین لکھاری ہے۔ ویسے ہمیں جن کی تحریریں پسند ہیں، عموماً اُن کے حوالہ جات آپ کو ہماری تحریروں سے مل ہی جاتے ہوں گے۔

دل چسپ مشاہدات و تجربات

سنڈے میگزین کا ٹائٹل ہی پورے جریدے کی کہانی بیان کررہا ہے۔ ’’اشاعتِ خصوصی‘‘ میں اقبال کی اہلِ اسپین کو دعوتِ اسلام، ’’خانوادے‘‘ میں ڈاکٹر قمر عباس کی ’’داستان سرائے‘‘ کے مکینوں کے حالاتِ زندگی، ’’حالات و واقعات‘‘ میں منور مرزا کے جہاں دیدہ قلم سے امریکی انتخابات کا بھرپور جائزہ، اور’’ہیلتھ اینڈ فٹنس‘‘ کے باب میں ڈاکٹر اظہر چغتائی کی نگارش… ہر ایک تحریر ہی اپنی جگہ مثالی تھی۔ اور پھر ایڈیٹرصاحبہ کا شاہ کار رائٹ اپ۔ 

نیز، آئی جی جیل خانہ جات، بلوچستان ملک شجاع الدین کاسی سے فرخ شہزاد ملک کا بہترین’’انٹرویو‘‘ اور ’’سرچشمۂ ہدایت‘‘، ’’متفرق‘‘، ’’ڈائجسٹ‘‘، ’’خودنوشت‘‘ کے صفحات، سب ہی پڑھ کے خوب سیر ہوئے ، خصوصاً چیمہ صاحب کی زندگی کے دل چسپ مشاہدات و تجربات پڑھ کے تو بہت ہی لُطف اندوز ہو رہے ہیں۔ (صدیق فنکار، عسکری اسٹریٹ، دھمیال روڈ، جھاورہ کینٹ، راول پنڈی)

ج: بجا فرمایا۔ ذوالفقارچیمہ صاحب کی ’’خُود نوشت‘‘ کا فیڈ بیک تو ہماری توقعات سے بھی کچھ بڑھ کر ہی آرہا ہے۔

کون سا پھول پسند آجائے …

’’ڈینگی‘‘ کے عنوان سے ایک تحریر حاضرِ خدمت ہے، شائع کر کے شکریہ کا موقع دیں۔ علاوہ ازیں، آپ نے6؍اکتوبر کے سنڈے میگزین میں بندے کی تحریر ’’لیوٹالسٹائی: عظیم ناول نگار، افسانہ نگار‘‘ شائع کی، جس پر بندہ دل کی اتھاہ گہرائیوں سےآپ کا ممنون و شُکرگزار ہے۔ 

دُعا ہے کہ اللہ تعالیٰ آپ کا اقبال بلند کرے۔ دراصل، بندہ چاہتا ہے کہ آپ کے سامنے کئی رنگ برنگ پھول سجائے کہ اللہ جانے کون سا پھول آپ کو پسند آجائے۔ اور سنڈے میگزین کی زینت بن جائے، لہذا ’’اسموگ‘‘ کے عنوان سے بھی ایک تحریر حاضرِ خدمت ہے ۔ (بابرسلیم خان، سلامت پورہ، لاہور)

ج : براہِ مہربانی آپ اُن ہی پھولوں کا انتخاب کریں کہ جن کے رنگ و بُو سے بھی کچھ آگہی رکھتےہیں۔اب ڈینگی، اسموگ پر تحریریں بھیجیں گے، تو وہ ناقابلِ اشاعت کی فہرست ہی میں جگہ بنائیں گی۔ پلیز، اِن موضوعات کو اُن کے ماہرین ہی کے لیے مختص رہنے دیں۔ 

دوم، آپ سے پہلے بھی دست بستہ التماس کی ہے کہ اِس طرح تھوک کے بھاؤ تحریریں بھیجنے کا کوئی فائدہ نہیں ہوتا۔ سو، نہ اپنی توانائی ضائع کریں ، نہ ہمارا وقت۔ جب تک ایک تحریر شائع نہ ہو، دوسری بھیجنے سے احتراز کریں۔

اشعار کا چٹخارہ نہیں تھا

شمارہ موصول ہوا۔ ’’گلِ صد برگ‘‘ پڑھ کے ’’سرچشمۂ ہدایت‘‘ پرپہنچے۔ پروفیسر حافظ حسن عامر نے قدرتی آفات، وبائی امراض سے تحفّظ کے لیے گناہوں سے توبہ استغفار کی فضیلت قرآن و حدیث کے حوالوں سے موثر پیرائے میں بیان کی۔ منور مرزا ’’شنگھائی کانفرنس‘‘ میں بھارتی وزیرِخارجہ کی آمد سے پاک، بھارت تعلقات کی برف پگھلنے کی نوید سُنا رہے تھے۔ ؎ میر کیا سادے ہیں بیمار ہوئے جس کے سبب…اُسی عطّار کے لڑکے سے دوا لیتے ہیں۔

خیر، ’’اشاعتِ خصوصی‘‘ میں حافظ بلال بشیر نے قومی معیشت میں کفایت شعاری کی اہمیت اجاگرکی، لیکن بھیا! کفایت شعاری ہمارے حُکم رانوں کے منشور میں شامل نہیں۔ وہ ایک طرف آئی ایم ایف کے سامنے کشکول پھیلاتے ہیں، دوسری طرف وزرا،بیوروکریسی کےلیے قیمتی گاڑیوں کے بیڑے منگوا جاتےہیں۔ کئی محکمے بند اورغریبوں کو بےروزگار کرنے کا نام کفایت شعاری ہے، تو اللہ بچائے ایسی کفایت شعاری سے۔ 

محمّد واحد نے ’’اے آئی انقلاب میں پوشیدہ مواقع‘‘ گنوائے، تو بذریعہ ’’فیچر‘‘ رؤف ظفر چائلڈ لیبر کا نوحہ بیان کر رہے تھے۔ ہم پچاس کی دہائی سےیہ خلافِ قانون و اصول کے بھاشن سُنتے آرہے ہیں، مگر کوئی عملی اقدام ہوتا نہیں دیکھا۔ یہ غربت ہی ہے، جو معصوم بچّوں کے ہاتھوں میں کتاب کے بجائے اوزار تھما دیتی ہے۔ ’’سینٹر اسپریڈ‘‘ میں اس بار اشعار کا چٹخارہ نہیں تھا،تو آگے بڑھ گئے۔ ’’خودنوشت‘‘ میں غیور پولیس آفیسرذوالفقار چیمہ کی کہانی، اُن ہی کی زبانی بہت لُطف دے رہی ہے۔ 

’’انٹرویو‘‘میں وحید زہیر نے سابق رکنِ بلوچستان اسمبلی شکیلہ نوید دہوار سے اچھی بات چیت کی۔ اصل میں بلوچستان کے مسائل کی جڑ ’’سرداری نظام‘‘ ہے اور اِسے ختم کیے بغیر حالات درست نہیں ہوسکتے۔ ’’ہیلتھ اینڈ فٹنس‘‘ میں پروفیسر ڈاکٹر غلام علی مندرہ والا نے جگر کی خرابی کی اہم علامات اوراحتیاطی تدابیر سے آگاہ کیا۔ ’’متفرق‘‘ میں قدر پرواز نے انجینئر طالبات سے متعلق ہلکی پُھلکی تحریر بہت عُمدگی سے لکھی ’’ڈائجسٹ‘‘ کا ’’اکیسواں سوئیٹر‘‘ بھی بہت خُوب صُورتی سے بُنا گیا۔ 

سید سخاوت علی جوہر کی غزل بھی اچھی تھی۔ مناہ جاوید نے ’’دُعا‘‘ کی اہمیت بیان کی۔ پرنس افضل شاہین کے اقوالِ زریں بھی سیدھے دل میں اُترے۔ اور’’آپ کا صفحہ‘‘میں ہم آپ کی پے درپے نوازشوں پہ دل سے ممنون ہیں۔ خادم ملک کوئی شوٹ ووٹ نہیں کروائیں گے، بس، ایویں ہی اونگیاں بونگیاں مارتے رہیں گے، آپ اُنہیں اور اُن کے حمایتیوں کو زیادہ سنجیدہ نہ لیا کریں۔ (شہزادہ بشیر محمّد نقش بندی، میرپورخاص)

ج : ارے بھئی، آپ بےفکر رہیں، ہم کسی کو بھی کچھ زیادہ سیریس نہیں لیتے اور بلاوجہ کے حمایتیوں کو تو بالکل بھی نہیں۔ ہاں، آپ کی اشعارکےچٹخارے کی بات پر اِس لیے حیرت ہوئی کہ خُود آپ کو توہم نےآج تک کسی ایک خط میں کوئی درست شعر لکھتے نہیں دیکھا۔ آج بھی میر کے انتہائی معروف شعر کے ساتھ آپ نے جس قدر زیادتی فرما رکھی تھی، اگر بعینہ شایع کردیتے تو اُن کی رُوح ہی تڑپ جاتی۔

تمام تر حشر سامانیوں کے ساتھ

اُمید ہے کہ آپ او ر آپ کی ٹیم بخیریت ہوگی۔ سالِ گزشتہ کا آفتاب اپنی تمام تر حشر سامانیوں کے ساتھ قصۂ پارینہ ہوا چاہتا ہے۔ نئے برس مُلکی و عالمی حالات و واقعات جانے کیا ہوں۔ شمارے میں محمّد یٰسین شیخ اسوۂ حسنہ بیان کر رہے تھے، جو کہ ایک بہت ہی دل گداز تحریر تھی۔ امریکی صدارت کی جنگ پر منور مرزا کا تجزیہ ہمیشہ کی طرح بہت خُوب رہا۔ 

عابد شیروانی علامہ اقبال کےشیدائی معلوم ہوتے ہیں، اقبالیات پر عُمدگی سے قلم طراز تھے، ایک اچھوتا شاہ کار لائے۔ فرخ شہزاد بلوچستان کے مسائل کا ادراک کروارہے تھے۔ کرن نعمان اور ناہید خان کے افسانے ’’دوسرا موڑ‘‘ اور ’’درد‘‘ بہترین انتخاب ثابت ہوئے۔ اور ’’آپ کا صفحہ‘‘ تو پھر آپ ہی کا صفحہ ہی ہے۔ (شمائلہ نیاز، دائرہ دین پناہ، تحصیل کوٹ ادّو، ضلع مظفّر گڑھ)

                                         فی امان اللہ

اس ہفتے کی چٹھی

کئی جرائد سنبھال رکھے ہیں، کچھ خاص تحریروں پر مختصر مختصر تبصرہ کروں گی۔ جیسا کہ ایک جریدے میں خواتین کی جگہ حضرات کو جلوہ افروز دیکھ کر بہت خوشی ہوئی تھی۔ ’’حالات و واقعات‘‘ میں منور مرزا کے تجزیات اُن کی جامع قلمی، زیرک نگاہی کامنہ بولتا ثبوت معلوم ہوتےہیں۔ حُکم رانوں کو دئیے گئے مشورے تو خاص طور پر لائقِ مطالعہ ٹھہرتے ہیں۔ مگر سلام ہے، صاحبانِ اقتدار پر بھی کہ کان پر جُوں تک نہیں رینگتی، عوام محض مغز سے محروم ہیں، مگر یہ تو شاید کھوپڑیوں سے بھی۔ 

بقول اقبال ؎ جہاں بانی سے ہے دشوار تر، کارِجہاں بینی… جگر خون ہو تو چشمِ دل میں ہوتی ہے نظر پیدا۔ اور جب چشمِ دل ہی خالی ہو تو پھر نظر کیوں کر پیدا ہو۔ بہرکیف، شہبازحکومت، ’’کچھ نہ ہونے سے کچھ تو ہے‘‘ کے مصداق بہتر ہی ہے۔ اللہ اِن کو مزید فہم و فراست عطا کرے۔ حافظ محمد ثانی ہمیشہ ہی سے ’’ڈاکٹر حافظ محمد ثانی‘‘ ہی تھے، یا میری ہی سوئی نگاہوں نے آج کچھ غور کیا ہے۔ بہرحال، اُن کا مضمون جامعیت اور ربطِ قلم کا مرقع معلوم ہوا۔ 

اللہ پاک قلم کو کچھ اور بھی زور آور کرے۔ محمود شام کا پاکستانی جامعات سے متعلق مضمون بھی دل کو بہت بھایا تھا، جو اِس بات کی غمّازی کررہا تھا کہ اگر مُلک و قوم کو جہالت کے اندھیروں سے نکالنا، سماج کی خیرخواہی مطلوب ہے، تو جامعات کو اپنی روش بدلنی گی۔ خیام الپاک ظفر محمّد خان کی ایک ’’رپورٹ‘‘، ’’پاک سیٹ رقصاں ہے، چاند کےمدار میں…‘‘کافی اُمید افزا اور دل چسپ تھی۔ درحقیقت اصل خوشی اِس بات کی ہوئی کہ پاکستان آگے بڑھ رہا ہے۔ 

حسن عباسی کے ’’سات عظیم شعرا کرام‘‘ پر لکھے مضامین سے بھی معلومات میں بہت اضافہ ہوا۔ جریدے میں ایسی علمی و ادبی تحریریں شامل رہیں، تو کون ’’سنڈے میگزین‘‘ کے سحر سے آزاد ہونا چاہےگا۔ ضیاءالحق کا آسٹریلیا کا سفرنامہ بھی خاصےدل چسپ پیرائے میں مرقوم تھا، خصوصاً ’’تعویذ والی چائے‘‘ جیسے فقرات نے بہت لُطف دیا۔ 

’’ہیلتھ اینڈ فٹنس‘‘ اور ’’پیارا گھر‘‘ کی بیش تر نگارشات ہردل عزیز ٹھہرتی ہیں، خصوصاً ’’ڈائجسٹ‘‘ میں عالیہ زاہد بھٹی کے افسانے اور ’’پیارا گھر‘‘ میں ڈاکٹر عزیزہ انجم کے مضامین زیادہ پسند کیے جاتے ہیں اور اب اگر بات کی جائے ’’آپ کا صفحہ‘‘ کی، تو نرجس جی! آپ نے تو بعض مواقع پرچھے چھے چھکے ہی لگادیئے، جیسا کہ صابرہ رفیق کے پیچھے چُھپے ایم اے ایس کا پردہ فاش کیا۔ جیسے کوئی کرائم سین چل رہا ہو۔ 

ہاہاہا… بخدا میری اور میری بہن کی تو ہنسی ہی چُھوٹ گئی۔ بلاشبہ، آپ جس سِیٹ پر براجمان ہیں، اُس کی اہلیت بھی رکھتی ہیں، لوگوں کو اُن کے ہینڈ رائٹنگز سے پہچان لیتی ہیں۔ ہاں ایک اور بات، نواب زادہ بےکار ملک سے کہیے کہ اونگیاں بونگیاں بہت ہوگئیں، اب بالکل مزہ نہیں آرہا۔ (ایمن علی منصور)

ج: حافظ محمد ثانی، ایک طویل عرصے سے ڈاکٹر حافظ محمد ثانی ہی ہیں۔ اور بےکار ملک سے ہم کیا کہیں کہ ہم تو کہہ کہہ تھک گئے، آپ کا پیغام ہی بعینہ شایع کیے دے رہے ہیں۔

گوشہ برقی خطوط

* شمارے میں سب سے پہلے رومی سے متعلق پڑھا۔ ’’اسٹائل‘‘ میں دو ماڈلز آدھی کھائی آئس کریم کونز لیے نظرآئیں، کیا آدھی پوزدیتےدیتے پگھل گئی یا اتنی مزے دار تھی کہ تصویر لینے تک صبر نہیں ہوا۔ (ہاہاہاہا…) حافظ بلال کی ”دوستی“ سے متعلق تحریر پڑھ کےساری بچپن کی سہیلیاں یاد آگئیں۔

’’ڈائجسٹ‘‘ کا افسانہ’’شبِ قدر‘‘ تو بس خُون کے آنسو رُلا گیا۔ اور یہ ’’آپ کا صفحہ‘‘ کی’’مشرقی لڑکی‘‘ تو خادم ملک کی کوئی بھانجی، بھتیجی معلوم ہوتی ہے۔ ’’ناقابلِ فراموش‘‘کی کمی اس باربھی شِدّت سے محسوس ہوئی۔ (قرات نقوی،ٹیکساس،امریکا)

ج: بھئی، آپ لوگوں کواب ’’ناقابلِ فراموش‘‘ کی کمی کتنی ہی شدّت سے کیوں نہ محسوس ہو، ہم نے بھی تہیّہ کرلیا ہے، جب تک ڈھنگ کے واقعات موصول نہیں ہوں گے، ہم ناحق اپنا ایک اتنا قیمتی صفحہ ضایع نہیں کریں گے۔

* میڈم! کیا مَیں ’’ٹیچرز ڈے‘‘ کے حوالے سے اپنا ایک آرٹیکل بھیج سکتی ہوں ؟؟ (طوبیٰ سعید، لاہور)

ج: بارہا درخواست کی ہے کہ جب تک آپ کے بھیجےگئے کسی ایک مضمون سے متعلق کوئی فیصلہ نہ ہوجائے، دوسرا ہرگزمت بھیجیں، مگرآپ لوگ ہماری گزارشات کو درخورِاعتنا ہی کب جانتے ہیں۔ نتیجتاً تحریروں کاایک انبار لگتا چلا جاتا ہے۔ آپ کی بھی متعدّد تحریریں پہلے ہی قطار میں موجود ہیں، اِس لیے براہِ مہربانی مزید کوئی تحریر نہ بھیجیں۔ یوں بھی ای میل کی اشاعت کی باری آنےتک تو پُلوں کےنیچے سے ’’سارا‘‘ ہی پانی گزر چُکا ہوتا ہے۔

* آپ کے جریدے میں ایک مضمون شایع ہوا، جس میں Oat کا ترجمہ ’’جَو‘‘ کیا گیا، تو براہِ مہربانی تصحیح فرمالیں کہ ’’جَو‘‘ کی انگریزی Barley ہے، نہ کہ Oat۔ Oat کی اردو جئی یا جوی ہے۔ ’’جَو‘‘ایک بنیادی فصل ہےاور ’’جئی‘‘ گھاس سے حاصل ہونے والی ثانوی فصل کے طور پر اُگائی جاتی ہے۔ (ریاض حسین شہزاد، راول پنڈی)

ج: آپ نے بالکل درست رہنمائی فرمائی۔ آپ کا بےحد شکریہ۔ آئندہ بھی اصلاح و رہنمائی کا سلسلہ جاری رکھیے گا۔

قارئینِ کرام کے نام !

ہمارے ہر صفحے ، ہر سلسلے پر کھل کر اپنی رائے کا اظہار کیجیے۔ اس صفحے کو، جو آپ ہی کے خطوط سے مرصّع ہے، ’’ہائیڈ پارک‘‘ سمجھیے۔ جو دل میں آئے، جو کہنا چاہیں، جو سمجھ میں آئے۔ کسی جھجک، لاگ لپیٹ کے بغیر، ہمیں لکھ بھیجیے۔ ہم آپ کے تمام خیالات، تجاویز اور آراء کو بہت مقدّم ، بے حد اہم، جانتے ہوئے، ان کا بھرپور احترام کریں گے اور اُن ہی کی روشنی میں ’’سنڈے میگزین‘‘ کے بہتر سے بہتر معیار کے لیے مسلسل کوشاں رہیں گے۔ہمارا پتا یہ ہے۔

نرجس ملک

ایڈیٹر ’’ سنڈے میگزین‘‘

روزنامہ جنگ ، آئی آئی چندریگر روڈ، کراچی

sundaymagazine@janggroup.com.pk

سنڈے میگزین سے مزید