• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اقبال کا تیسرا مجموعہ کلام ’ضرب کلیم‘ 1936ء میں شائع ہوا ۔ اقبال کے شعری خزانے میں تخیل کے اعتبار سے ’جاوید نامہ‘ اور اردو غزل کی رفعت میں ’بال جبریل‘ کا جواب نہیں۔ ضرب کلیم میں اقبال نے ذیلی عنوان ہی میں دور حاضر کے خلاف اعلان جنگ کر دیا۔ یہ گزشتہ صدی کی تاریخ کے تشکیلی برس تھے۔ اسپین کی خانہ جنگی شروع ہو چکی تھی اور دوسری عالمی جنگ شروع ہونے میں محض تین برس باقی تھے۔ دو تہائی انسانیت غیر ملکی حکمرانی کے طوق تلے سسک رہی تھی۔ دوسری طرف جاپان، جرمنی، اٹلی اور روس کے اپنے استعماری عزائم تھے۔ اقبال محکوم ہندوستان کا باشندہ تھا۔ ایسا ہندوستان جو براہ راست شخصی بادشاہت سے غیر ملکی حکمرانی کے زیر اثر منظم فوج، ریلوے، آبپاشی، تار اور ڈاک کی حد تک جدید دنیا سے آشنا ضرور ہو گیا تھا لیکن اس کا ارتقا داخلی نامیات کی نسبت خارجی محرکات سے متشکل ہوا تھا۔ اقبال ایک طرف ہندوستانی قوم پرست تھے اور دوسری طرف ایک احیا پسند بھی تھے۔ ہر عہد اپنے زمانے کے عسکری علوم، معاشی حقائق اور عسکری طاقت سے صورت پذیر ہوتا ہے۔ اٹھارہویں صدی سے انسانوں نے ’تیز رو تبدیلی‘ کی خواہش میں انسانیت کے بڑے دھارے سے انحرافی راستہ نکالنے کی کوشش کی۔ فرانس سے روس تک اور چین سے ایران تک ایسی کوئی کوشش کامیاب نہیں ہو سکی۔ ہم عصر حقائق سے انکار کرنے والے گروہ تاریخ کے بگولوں کی گردش میں اوجھل ہو جاتے ہیں۔

کبھی کبھی خیال آتا ہے کہ جدید فلسفے اور ہم عصر ادب کے اسالیب پر عبور حاصل کیے بغیر کوئی اقبال کو کیا سمجھے گا۔ ہمارے ہاں تو ایک وقت ایسا بھی آیا کہ چکوال کے ایک مرد دانش نے علامہ خادم حسین رضوی کو فکر اقبال پر عبور کی سند دے دی تھی۔ خیر محترم ایاز امیر بادشاہ آدمی ہیں۔ وہ طاہر القادری کو ’انقلابی‘ اور عمران خان کو ’صاحب سلوک‘ قرار دینے پر قادر ہیں۔ آپ کا نیاز مند کئی برس سے اکبری منڈی کے پہلوان نما صحافتی دانشوروں اورموچی دروازے کے مرغان باد نما کے حق میں اقبال سے اپنی عقیدت سے دست کش ہو چکا ہے۔ مکالمہ اہل علم سے کیا جاتا ہے اور اختلاف اہل ظرف سے۔تعصب کی اوٹ میں مفاد کاشت کرنے والوں سے اقبال کی فکری جہتوں، سیاسی بصیرت اور ادبی مقام پر کیا بات کی جائے۔ اقبال نے پاکستان کا خواب دیکھا تھا۔ ذہنی بددیانتی ، سیاسی بے بصیرتی، مذہبی منافقت اور مالی لوٹ کھسوٹ کا خواب تو نہیں دیکھا تھا۔ دنیائے خاک و آب میں رفتگاں کا واپس لوٹنا ممکن ہوتا تو میں چشم تصور سے بابائے قوم کو کسی ایسے سیاست دان سے مکالمہ کرتے دیکھتا جس نے گزشتہ پانچ انتخاب پانچ مختلف جماعتوں کے ٹکٹ پر لڑے ہوں۔ اقبال کو کسی ایسے صحافی سے مکالمہ کرتے ہوئے دیکھتا ہوں جو حرف خبر کی بجائے سازش اور فریب دہی کا کھلاڑی ہو ۔ ضرب کلیم میں اقبال نے ’خواجگی‘ کے عنوان سے کہا تھا کہ جب غلام خوئے غلامی میں پختہ ہو جاتے ہیں تو ان پر حکومت کرنے میںکوئی دقت باقی نہیں رہتی۔ اقبال کو رخصت ہوئے نو دہائیاں ہونے کو آئیں۔ اردو شعر میں ان کامقام کسی بزعم خود مدبر عصر یا کسی خود ساختہ Walter Lippmann کی سند کا محتاج نہیں۔ تاہم خیال آتا ہے کہ کیا غلامی صرف غیر ملکی حکمرانی ہی کا نام ہے۔ اخبار کا ورق سلگ اٹھنے کا اندیشہ نہ ہوتا تو میں سوال کرتا کہ 5اگست 2019ء سے اب تک پاکستانی صحافت میں کشمیر پر زیادہ بات ہوئی ہے یا فلسطین پر؟ یہ بھی پوچھتا کہ 9مئی 2023ء کے واقعات میں قومی مفاد کو زیادہ نقصان پہنچا ہے یا 2021ء میں پاکستانی شہریوں کے قاتل مذہبی دہشت گردوں کو پاکستان واپس آنے کی اجازت دینے سے ہماری مغربی سرحد زیادہ غیر مستحکم ہوئی ہے۔ خواجگی کو ایسی زمین پر کیا دقت پیش آئے جہاں صاحب قلم اشارے پر قومی ریاست کی دفاعی افواج کو ’جہاد‘ کے نعرے سے متصف کر دیتا ہے۔ پھر ’مجاہدین‘ کوخانہ جنگی کا ذمہ دار قرار دیتا ہے۔ طالبان کے قصیدے لکھتا ہے۔ تاریخ ورق پلٹتی ہے تو دہشت گردی کی ’تعریف ‘پوچھنے لگتا ہے۔ اچھے اور برے طالبان میں تمیز چاہتا ہے۔ دو دہائیوں تک مسلسل بتایا گیا کہ طالبان اچھے یا برے نہیں ہوتے، محض تاریخ کے قافلے سے بچھڑے ہوئے غول بیانانی ہوتے ہیں۔ تازہ فرمان یہ ہے کہ مذہبی دہشت گردوں کو ’فتنہ الخوارج‘ کہا جائے۔ کیا یہ لوگ نہیں جانتے کہ محض ایک اصطلاح بدلنے سے طالبان کے جرائم کی تاریخی کاٹ کند ہو جائے گی۔ اصطلاح بدلنے سے جرم ختم نہیں ہوتا۔ قومی شعور اور تاریخی بصیرت دھندلا جاتے ہیں۔ ٹھیک اسی طرح سے جیسے ان دنوں ہماری صحافت میں ’اسٹیبلشمنٹ‘ کا لفظ اس بے باکی سے استعمال ہو رہا ہے گویا یہ کوئی دستوری، جمہوری اور جائز اصطلاح ہے۔ خوئے غلامی میں پختہ ہجوم کو خبر ہو کہ دنیا کی ہر قوم میں اسٹیبلشمنٹ کی کوئی نہ کوئی صورت پائی جاتی ہے۔ اسٹیبلشمنٹ پیوستہ مفادات کی مختلف صورتوں کا ایسا ناجائز گٹھ جوڑ ہوتا ہے جس کا مقصد عام شہری کو اس کے جائز حقوق سے محروم کرنا، وسائل پر اجارہ داری قائم کرنا، فیصلہ سازی پر بالادستی قائم کرنا اور قومی ترجیحات کے تعین میں ناجائز رسوخ حاصل کرنا ہوتا ہے۔ اسٹیبلشمنٹ دراصل وسیع تر قومی مفاد کے بالمقابل گروہی مفاد کا بندوبست ہے۔ کسی قوم میں اسٹیبلشمنٹ کی دستکاری کا مقابلہ عوامی شعور کی چنگاری سے کیا جاتا ہے۔ یہ چنگاری درس گاہ، ذرائع ابلاغ، سیاسی عمل اور تمدنی مکالمے کی صورت میں اپنا اظہار کرتی ہے۔ ایسا اظہار انحراف ، انکار اور مزاحمت کی شکلیں اختیار کرتا ہے۔ جہاں صبح سے شام تک سینکڑوں ذہن ساز اسٹیبلشمنٹ کو ملکی سیاست کے تجزیے میں پلک جھپکے بغیر ایک جائز اکائی کے طور پر پیش کر رہے ہوں وہاں یہ سمجھنا نادانی ہو گی کہ غلامی سے نجات کاجو خواب اقبال نے دیکھا تھا وہ پورا ہو چکا۔ المیہ تو یہ ہے کہ جنہیں اقبال کے تصورات کا دفاع کرنا تھا انہوں نے ’خوئے غلامی‘ کے منطقے میں ذاتی مفاد کا ٹیوب ویل لگا لیا ہے۔ خاک میں موتی رول رہی ہے چشم گہرآباد۔

تازہ ترین