• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

دنیا میں ہر شعبے میں اعلیٰ مہارت کیلئے مختلف ادارے پائے جاتے ہیں۔ جہاں سے فارغ التحصیل ہونیوالے اپنے متعلقہ شعبے میں مخصوص فنّی مہارت سے ملک وقوم کی خدمت کرتے ہیں۔ جس سے معاشرہ مجموعی حیثیت سے ترقی کی طرف پیش قدمی کرتا ہے۔ یہ کبھی نہیں ہوتا کہ ڈاکٹر کا کام قصاب یا انجینئر کا کام کوئی مزدور کر رہا ہو ۔ اپنی اپنی حیثیت میں تما م شعبے قابلِ تعریف اور یکساں اہمیت کے حامل ہیں لیکن اس کیلئے اپنے مخصوص شعبے میں خدمات سرانجام دینا ضروری ہوتا ہے۔ ساری دنیا میں (Right Person Right Job) یعنی ’’متعلقہ شعبے میں بہترین شخص‘‘ کا قانون کارفرما ہے۔ جس کی وجہ سے دنیانے ہر شعبے میں ترقی کی ہے۔ یہ کوئی بہت پرانی بات نہیں کہ چند صدیاں قبل حکومت سازی یا راج نیتی اور سیاست کے معاملات میں صرف اندھی طاقت کا اصول کار فرما ہوتا تھا۔ اس کیلئے کسی مخصوص درس گاہ کی ضرورت محسوس نہیں کی جاتی تھی۔ اقتدار حاصل کرنےکیلئے ہر وقت محّلاتی سازشوں کا جا ل بچھا یا جاتا تھا۔ یہی طریقے اقتدار کو برقرار رکھنے کیلئے استعمال کیے جاتے تھے۔ گویا ہر ملک کے قومی وسائل ترقی کی بجائے سازشوں ، مخالفین کی خریدوفروخت اور اسلحے کی تیاری میں صرف ہوتے تھے۔ جسکی وجہ سے حاکم نہ تو بے فکری سے حکومت کر سکتے تھے اور نہ ہی عوامی فلاح و بہبود کیلئےکوئی طویل منصوبہ بندی کر سکتے تھے کیونکہ وہ ہر وقت اقتدار بچانے اور اقتدار حاصل کرنے کی تگ و دو میں مصروف رہتے تھے۔ صرف یہی نہیں، پورا معاشرہ ہر وقت بے یقینی کا شکار رہتا تھا کہ نجانے کب کیا ہو جائے۔ اندرونی یا بیرونی حملہ آور کب معاشرے میں قتل و غارت گری کا بازار گرم کردیں۔ جس زمانے میں احمد شاہ ابدالی تقر یباً ہر سال ہندوستا ن پرحملہ آور ہوتا تھا۔ اس زمانے میں پنجاب میں ایک کہاوت مشہور ہوتی تھی کہ ’’کھاد ا پیتا لاہے دا باقی احمد شاہے دا‘‘ یعنی جو کھا پی لیا ہے وہی ہمارا تھا ،باقی احمد شاہ کا ہے۔ یہ حال صرف ہندوستان کا نہیں ساری دنیا کا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ کچھ خاندانوں نے کچھ ممالک پر صدیوں تک حکومت کی۔ ان حالات میں معاشرتی، اخلاقی یا سائنسی ترقی خاک ہونا تھی۔ انسانی معاشرے نے صرف اس وقت تیز رفتاری سے ترقی کی جب مار دھاڑ کے ذریعے اقتدار حاصل کرنے یابرقرار رکھنے کے نظام کی جگہ ایک ایسے سیاسی نظام نے لے لی جس میں اقتدار کا سرچشمہ عوام کو ٹھہرایا گیا اور انکی مرضی سے حکومتوں کو ایک مخصوص وقت کیلئے چنا جانے لگا۔ اس سے حکومتیں بنانے اور گرانےکیلئے محّلاتی سازشوں او رقومی وسائل کے ضیاع کی بجائے قومی ترقی کا دور شروع ہوا اور زندگی کے ہر شعبے میں ناقابلِ یقین تبدیلیاں آنے لگیں۔ اسی نظام نے اُن تمام غیر حقیقی عوامل کو عوامی معاشرت سے علیحدہ کر دیا۔ جو ایک لمبے عرصے عوام کے درمیان مخالفت ، مخاصمت اور عداوت کا سبب بنے ہوئے تھے۔ اس میں مذہب، قومیت، زبان اور کلچر جیسے موضوعات بھی شامل تھے۔ اب لوگوں کے پاس اپنے حکمران چننے کا آزادانہ موقع تھا۔ جس میں عوامی فلاح و بہبود عوام کی اوّلین ترجیح تھی۔ اسی نظام نے معاشرے میں صدیوں پرانی منفی روایات کو ختم کردیا اور انسانی معاشرے کو محبت اور امن کی آماجگاہ بنایا۔ پاکستان جیسے ممالک جو آج بھی ’’جس کی لاٹھی اسکی بھینس ‘‘ کے اصول کے تحت چلائے جا رہے ہیں۔ اسی وجہ سے ترقی یافتہ دنیا سے بہت پیچھے رہ گئے کہ یہاں زیادہ تر قومی وسائل اور توانائیاں حکومتیں گرانے اور بنانے کے غیر مہذب اور غیر آئینی عمل میں ضائع کردی جاتی ہیں۔ ساری مہذّب دنیا میں سیاسی تربیت کیلئے سیاسی جماعتیں اور انتخابی عمل کو بنیادی اداروں کی حیثیت حاصل ہے لیکن ہمارے ہاں پولیس، عدلیہ اور ریاست کے دیگر ادارے بھی سیاسی نظام کا ایک لازمی حصّہ سمجھے جاتے ہیں کیونکہ حکومت مخالف افراد کو جھوٹے مقدمات میں پھنسانے اور ان پر طرح طرح کا مالی اور اخلاقی دبائو ڈالنےکیلئے ان اداروں کو استعمال کیا جاتا ہے۔ پاکستان کے معاملے میں سب سے خوفناک بات یہ ہے کہ غیر سیاسی اداروں کو سیاسی مقاصد کیلئے استعمال کرنے کی وجہ سے پورا سیاسی اخلاقی ڈھانچہ تباہ و برباد ہو گیا ہے۔ قومی ترجیحات کے حوالے سے دیکھا جائے تو سیاسی نظام سب پر حاوی ہے۔ کیونکہ سیاسی نظام ہی ملک کی فلاح و بہبود اور ترقی کی بنیادی وجہ ہے اور اس میں سوسائٹی کے اعلیٰ ترین اور قابل افراد کو آگے آنا چاہیے اور ایک اچھے سیاسی کارکن کی پہچان اچھی سیاسی بصیرت ہونی چاہیےناںکہ اندھی شخصیت پرستی یا ریاستی جبر اور قید و بند کی صعوبتیں۔ یہ ایک بہت ہی اہم مسئلہ ہے جو ایک ریاستی معتوب پارٹی کو اقتدار میں آنے کے بعد در پیش ہوتاہے۔ جو بذاتِ خود غیر سیاسی عمل کو فروغ دینے کے مترادف ہے۔ اس سے پہلے پاکستان پیپلز پارٹی اس مرحلے سے گز ر چکی ہے۔ جب ایک طویل جد و جہد کے بعد پیپلز پارٹی کو لولہ لنگڑا اقتدار ملا تو پارٹی کا وہ ہر ورکر جس نے کسی شکل میں بھی ریاستی جبر سہا، قید یں کاٹیں یا کوڑے کھائے، وہ اپنی ان قربانیوں کی وجہ سے کسی نہ کسی حکومتی عہدے کا دعویدار بن گیا۔ گویا سیاسی کارکن کی کوالیفکیشن ’’سیاسی بصیرت‘‘ کی بجائے محض جسمانی و مالی قربانیاں رہ گئیں۔ اس ضمن میں پارٹی بھی مجبور ہو گئی۔ چنانچہ سیاست میں ایسے لوگوں کی بھرمار ہو گئی جن میں کما حقہ ، سیاسی بصیرت نہیں تھی۔ اس نے بھی سیاسی عمل کو آگے بڑھنے سے روک دیا۔ آج کل پی ٹی آئی کا بھی وہی حال ہے کہ اس کے اکثر کارکن سیاسی بصیرت کی بجائے ’’ریاستی جبر‘‘ کی کوالیفکیشن کے حامل ہیں۔ اور اگر کل کو پی ٹی آئی اقتدار میں آتی ہے تو اس کا سب سے بڑا امتحان بھی یہی لوگ ہوں گے۔ میرا آج کا شعر

ندی نالے ہمیشہ سے بھٹکتے پھرتے ہیں لیکن

کبھی رستہ نہ جو بدلے، سمندر اس کو کہتے ہیں

تازہ ترین