• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
گزشتہ ہفتہ ہمارے برادر ملک ترکی میں فوج نے صدر طیب اردوان کی حکومت کا تختہ اُلٹنا چاہا جب وہ مارمارامیں چھٹیاں گزارنے گئے تھے۔ یہ فوج کے ایک گروپ کی کارستانی تھی اور خود صدر صاحب کی خوش بختی کہ عین وقت پر ان کے ہاتھ بچا کچھا میڈیا آگیا ۔انہوں نے قوم سے سڑکوں پر آنے کی اپیل کی اور قوم نے اُس پر لبیک کہتے ہوئے فوجی ٹینکوں کا گھیرائو کر کے چند ہی گھنٹوں میں فوجی انقلاب کو نا کام بنا دیا ۔عالمی میڈیا کے مطابق جو فوجی دستہ اُن کے ہوٹل کی طرف بھیجا گیا تھا اُس میں پندرہ منٹ کی تاخیر ہوئی ورنہ وہ قتل کر دئیے جاتے ۔آگے کے حالات تمام میڈیا نے اپنے اپنے حساب سے بتائے ۔ترکی 1923میں بھی فوجی انقلاب سے بادشاہت ختم کر کے کمال اتا ترک کے ہاتھوں جمہوریت میں تبدیل ہوا ۔ترکی اور پاکستان ان دونوں ممالک میں ایک بات مماثل ہے وہ یہ کہ دونوں ملکوں میں فوجی انقلاب آتے رہے ۔ترکی کی 2001تک 78سالہ تاریخ میں40سال فوجی حکومتیں رہیں یا ہنگامی صورت حال سے ترکی گزرتا رہا ۔کچھ جزوی شہروں تک محدود رہا اور تین فوجی انقلاب 1980,1971,1960پورے ملک میں آئے کہا جاتا تھاکہ ہمارے ملک کی طرح وہاں کے سیاست دان کرپشن میں مبتلا تھے اور ملک و عوام کے بجائے اپنی سیاست اور جیبوں کو بھرنے میں لگے ہوئے تھے ۔1974میں ایک ڈالر ترکی کا 14لیرا کا تھا اور پاکستان میں ایک ڈالر 4.5(ساڑھے چار) روپے کا تھا ۔پاکستان نے بھی تین ملکی اتحاد ایران اور ترکی کے ساتھ مل کر بنایا تھا جس کو RCDکا نام دیا تھا ۔اس وقت پاکستان کی معیشت بہت مضبوط سمجھی جاتی تھی ۔ایک سڑک کو بھی تینوں ممالک سے ملانے کا پروگرام تھا جس کا نام RCDہائی وے رکھا گیا تھا بعد میں تجارتی لین دین جو مال کے بدلے مال کے تحت معاہدہ ہواتھا وہ توازن برقرار نہ رکھ سکا اور پھر آہستہ آہستہ معاہدہ ختم ہو گیا مگر ترک عوام آج بھی پاکستان کے حقیقی دوست ہیں اور خاص طور پر 1965ء کی جنگ میں ترکی کے ہم پر بڑے احسانات ہیں ۔بدقسمتی سے پاکستان میں بھی تین مار شل لا ء تواتر سے لگے ایک جزوی مارشل لا ء 1953ء میں صرف لاہور میں لگا تھا۔اس وقت ترکی میں مار شل لا ء تو نہیں لگا مگر تین ماہ کیلئے ہنگامی حالت کا نفاذ ہوا اور ہمارے ملک میں بھی مارشل لاء تو نہیں ہے مگر نیم فوجی دستے رینجرز کی شکل میں تعینات ہیں۔ خصوصاً کراچی کی مخدوش ترین حالت، ہمارے سیاستدانوں کی چپقلش اور کرپشن کو لگام دینے کیلئے یہ اقدامات نہ صرف ضروری تھے بلکہ ہماری معیشت کو تباہی سے روکنے کیلئے لازمی تھے اور چند ماہ سے عوام کو کافی حد تک سکون بھی ہوگیا ہے وہ الگ بات ہے کہ مرکز اور صوبہ میں اس کو ختم یا جاری رکھنے میں خط و کتابت اور کشمکش شروع ہو چکی ہے ۔
ترکی کی اس ناکام فوجی بغاوت کا ہمارے ملک میں بہت اثر ہوا ہے ۔اتفاق دیکھئے کہ ترکی کی حزب اختلاف یعنی ریپبلکن پیپلز پارٹی اس ناکام فوجی بغاوت کے خلاف حکومت کے نہ صرف ساتھ ہے بلکہ اس جشن میں بھی ساتھ ہے مگر ہمارے حزب اختلاف کے ابھرتے ہوئے سیاستدان عمران خان کہتے ہیں کہ اگر فوجی انقلاب پاکستان میں آتا تو عوام ان ٹینکوں پر پھول برساتے اورخوشیاں مناتے ان کے اکلوتے حواری عوامی مسلم لیگ کے شیخ رشید اس پر ایک نکتہ اور بڑھاتے ہوئے کہتے ہیں کہ قوم مٹھائی کی دکانیں خالی کر دیتی جبکہ مسلم لیگ (ن) والے اپنے لیڈر کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ہمارا لیڈر نوازشریف بھی مقبولیت میں طیب اردوان سے کم نہیں ہے خصوصاً اب جب کشمیر کے انتخابات کا نتیجہ آیا ہے جہاں مسلم لیگ (ن )دو تہائی اکثریت سے جیتی ہے۔یہ تو آزاد کشمیر کی پرانی تاریخ ہے کہ وہاں کی ہر حکومت پاکستان کی حکمران جماعت کے کندھوں پر ہی آتی رہی ہے ۔یہ کونسی نئی بات ہے ۔البتہ مسلم لیگ (ن )والے جواب دیں کہ نواز شریف صاحب کی حکومت چوتھی مرتبہ وجود میں آئی۔ صدر طیب اردوان نے اپنے دور حکومت میں نہ صرف IMFکے تمام قرضے ختم کئے بلکہ آج ایک کھرب ڈالر کے ذخائر بھی بینکوں میں جمع ہیں ۔اپنے دور میں دگنے اسپتال اور یونیورسٹیاں بنائیں ۔غریب عوام کیلئے گرین کارڈ اور ہیلتھ اسکیم نافذ کی ۔ہر شہری مفت علاج کا حقدار ہو گیا۔میاں صاحب نے کمال مہارت سے IMFسے دوبارہ اتنے لے لئے ہیں کہ آنے والی نسل ادا کرنا تو کجا سود ہی ادا کرتے کرتے تھک جائے گی ۔آپ نے کتنے نئےاسپتال کھولے ۔خود اپنے علاج کیلئے بھی آپ لندن جاتے ہیں ۔عوام کہاں جائیں ؟کتنی یونیورسٹیاں ، اسکول ، کالج آپ کی حکومت میں کھلے ؟بجلی اور گیس کی لوڈ شیڈنگ تک آپ روک نہ سکے ۔6ماہ کا وعدہ آج تین سال گزرنے کے بعد بھی دور دور تک پورا ہوتا نظر نہیں آرہا ۔غربت ،کرپشن اور مہنگائی کے سامنے آپ کے تمام وزرا ء نا اہل ہیں جنہیں آپ روز اول سے اپنا مشیر سمجھ کر وزارت کی کرسیاں عنایت فرماتے رہے ہیں۔ آپ کی خارجہ پالیسی کی دھجیاں آج ہی بھارت نے یہ کہہ کر اڑا دیں کہ آپ کے خلاف کشمیری عوام کو اُکسانے کے الزام میں FIRکٹوارہے ہیں ۔ایک طرف بھارت کشمیریوں پر مظالم میں سب سے آگے ہے ۔پوری دنیا اور میڈیا تماشا دیکھ رہا ہے ۔کوئی مسلمان ملک بھی کشمیر کے معاملے میں آپ کے ساتھ نہیں ہے ۔حال ہی میں وزیر اعظم مودی کو UAEمیں زبردست خراج تحسین سے نوازا گیا اور رادر عرب ملک میں سب سے بڑا شہری تمغہ بھی دیا گیا ۔آپ کی خارجہ پالیسی تو یہ ہے کہ تین سال تک وزیر خارجہ نہیں چنا جا سکا ۔مشیر سے جزوی کام چلا کر مدت پوری کی جا رہی ہے ۔عوام پر ٹیکسوں کی بھرمار کر رکھی ہے۔دوستوں کی صنعتوں پر سے ٹیکس ختم کرکے عوام کی جیبوں پر بوجھ ڈالا جا رہا ہے ۔آج 80%بینکوں سے لین دین ختم ہو چکا ہے ۔حوالہ پرچیاں چل رہی ہیں ۔ایک لے دے کر پراپرٹی کا کاروبار معیشت ، نوکریاں اور روزگار فراہم کر رہا تھا وہ بھی جب سے بجٹ آیا ہے مکمل طور پر ٹھپ ہو گیا ہے۔ عوام کو خوشحالی کی لالی پاپ دے کر بہلایا جا رہا ہے۔ عوام اپنے نجات دہندہ کے منتظر ہیں ۔سب کو آزما کر تھک ہار کر بیٹھے کسی کرشمے کے منتظر ہیں جو انکی مشکلات کو دور کرے ۔ترکی کی خوشحالی اور عوام کے رد عمل پر بہت خوش ہیں ۔آگے قلم لکھنے سے قاصر ہے۔
تازہ ترین