(گزشتہ سے پیوستہ)
جس طرح پبلک سیکٹر کے پاکستانی دوسرے شعبہ ہائے ترقی میں بھرپور اور مطلوب پوٹینشل موجود ہونے کے باوجود اپنی کیپسٹی بلڈنگ ترقی اور ڈلیوری کے عمل میں آنے کے بجائے مسلسل سیاسی عدم استحکام، بیڈ گورننس اور آمرانہ ادوار کے باعث جمود اور بگاڑ میں آگئے ہیں، اسی طرح نجی شعبہ کا تیزی سے توسیع و فروغ پاتا مین اسٹریم خصوصاً الیکٹرانک میڈیا اپنے گنجائش برابر ارتقا سے ہی تیزی سے فروغ پذیر میڈیا پاکستانی معاشرے کو بہت کچھ بہتر اور مطلوب ڈلیور کرتا رہا، تاہم میڈیا جانب مجموعی حکومتی ذہنیت غیر مطلوب پالیسی و قانون سازی اور آمرانہ و فسطائی اقدامات سے عوام کی نظر میں میڈیا کے کردار کو محدود اور متنازعہ بنانے کی حکومتی مہم جاری رہی۔ واضح رہے ملکی 76سالہ تاریخ میں 35 سال پر محیط ادوار ماتحت سول معاونت کی آمیزش سے مارشل لائی ہی رہے۔اس طرح ان آمرانہ ادوار میں ملکی میڈیا نے سرکاری پابندیوں، صحافتی پیشہ وری میں کھلی ریاستی مداخلت اور مالکان و صحافیوں کے خلاف غیر معمولی کڑے اقدامات کے باوجود آمریت کے خلاف مسلسل مزاحمت کی اور سوسائٹی کو اس آمرانہ ماحول میں بھی معاشی و سماجی ترقی و تفریح عامہ کے حوالے سے بیش بہا ڈلیور کیا۔
گویا پاکستانی میڈیا کو اس کے تاریخی پوٹینشل کے مطابق تحریک حصول پاکستان کو حاصل ابلاغی معاونت کے درجے کا کردار (تعمیر پاکستان) ادا کرنے کا موقع تو نہ ملا لیکن اس (روایتی میڈیا) کے حکومتی خلاف جمہوریت ذہینت اور قیام پاکستان کے مقاصد سے بھی متصادم میڈیا پالیسی کے باعث مارشل لائی ادوار اور میڈیا کے ریلیشنز کبھی بھی مطلوب درجے پر اطمینان بخش نہ رہے یوں جاندار اپوزیشن کی کمی ہونے سے ملکی میڈیاکا آزاد سیکشن ہی حجم میں کم ہوتےبھی اہم اور مثبت کردار ادا کرتا رہا۔ اب جاری صورتحال میں یہ امر تشویشناک ہے کہ ملک میں میڈیا کا حجم اور پوٹینشل میں قابل اطمینان اضافے اور اس کی عوام کو مطلوب ڈلیوری کی کیپسٹی بڑھنے کے باوجود آج میڈیا، ملٹری ریلیشنز کے تعلقات میں دوری اپنی نوعیت کے اعتبار سے تلخی اپنی انتہا پر ہے حالانکہ کمیونیکیشن ٹیکنالوجی کی کرشماتی ترقی اور اس کی ورطہ حیرت میں ڈالنے والی عمل داری اور نتائج نے قومی صحافت کی عوام و ریاست کو اپنی روایتی معاونت سے کہیں بڑے کار ہائے عظیم میں اپنے کردار کی بڑی جگہ بنالی ہے۔ واضح رہے کہ ملک میں 1994 سے انٹرنیٹ کی انقلابی ابلاغی ٹیکنالوجی 2000سے الیکٹرانک میڈیا میں نجی میڈیا ہائوسز کی جگہ بننے اور ایف ایم ریڈیو نیٹ ورک کی شکل میں ریڈیو براڈ کاسٹنگ کا تیز تر فروغ وہ عوامل ہیں جنہوں نے بحیثیت قوم پاکستان کے شدت سے مطلوب ابلاغی اثاثے کے حجم اور تیز تر ارتقاء کو تیز تر کردیا۔ مشرف دور کے آغاز میں الیکٹرانک میڈیا کا آغاز اور نجی ٹی وی چینلز کی تعداد جس تیزی سے بڑھی وہ ملکی سطح کا ابلاغی انقلاب ہی تھا جس میں اسے حیران کن حد تک آزادی بھی حاصل رہی اس ارتقاء پر بڑی ضرب وکلاء کی ملکی گیر تحریک کے دوران لگی، اگرچہ اس سے قبل ن لیگ کے دوسرے دور میں بھی ن لیگی حکومت اور ملکی سب سے بڑے جنگ میڈیا گروپ کوسول حکومت کے شدید دبائو اور سخت مخاصمانہ رویے کا بڑے خسارے والا سامنا کرنا پڑا، پھر مشرف دور کے اختتامی سال میں ملک گیر وکلا احتجاج تحریک میں میڈیا خصوصاً جنگ جیو کو سخت میڈیا حکومتی مخالف پالیسی کا سامنا کرنا پڑا۔ جیو انگلش بند ہونے سے پاکستانی آواز دنیا میں جانے سے رک گئی۔ جس کا فالو اپ تیسری ن لیگی حکومت کے دوران اسٹیبلشمنٹ اور جنگ/ جیو گروپ پر عتاب و مزاحمت کے غیر جمہوری ماحول میں پھر ہوا۔ اس میں بہت کچھ تلخ ہوا اور اسٹیبلشمنٹ اور سب سے بڑے ملکی میڈیا گروپ پر شدید دبائو سے پورے میڈیا کے قومی ارتقائی عمل کو دھچکا لگا۔
یاد رہے کہ تین سال قبل تک پاکستان میں انٹرنیٹ کی انقلابی عملی ٹیکنالوجی کے استعمال کا خوش کن ارتقاء ترقی پذیر ممالک میں تیزتر تھا۔ اس کا رخ علمی و تحقیقی مقاصد خصوصاً کاروباری سرگرمیوں تک تو بلند درجے پر تھا یا بذریعہ موبائل فون روایتی سماجی تعلقات کا دائرہ اور تعداد کا گراف تیزی سے بڑھ رہا تھا، لیکن وی لاگ، یوٹیوب چینل، تھمب نیل، ٹک ٹاک اور ٹوئٹر کی شکل میں ’’سٹیزن جرنلزم‘‘ کی آزاد، غیر پیشہ ورانہ اور ادارے و قانون سے آزاد پریکٹس کے محدود گراف نے کوئی اڑھائی سال قبل ’’رجیم چینج‘‘ کے تناظر میں سوشل میڈیا کا گراف بہت تیزی سے بڑھایا۔ تحقیقی مفروضے کی حد تک ترقی پذیر دنیا میں یہ مودی کو اقتدار میں لانے کی ان ہونی کو ہونی میں تبدیل کرنے اور عرب اسپرنگ کے ابلاغی زلزلے کے بعد ترقی پذیر دنیا میں پاکستان میں ’’رجیم چینج‘‘ کے بعد سے شروع ہونے والا سوشل میڈیا کا بڑے حجم کے سرگرم پاکستانی مین اسٹریم میڈیا کے مقابل، انقلاب آفریں ابلاغی ریلا تھا۔ یہ دیکھتے دیکھتے قومی ابلاغی نظام کا روایتی مین اسٹریم میڈیا کو زیر کرکے غالب اور اس (مین اسٹریم میڈیا) سے کہیں زیادہ غالب حصہ بن گیا۔ رجیم چینج سے پیدا ہونے والے داخلی سیاسی تنازعےمیں تشکیل پذیر قومی ابلاغی اثاثے پر اس کے تیز تر ارتقاء کے متوازی بشکل ابتری و عتاب جو جھٹکے اور ڈینٹ لگے ہیں وہ پاکستان کے لئے دنیا میںسوشل میڈیا بمقابلہ مین اسٹریم میڈیا کے قومی امور میں کردار کے نئے مطالعے و تحقیق (اور نتائج) کے نئے در کھول رہا ہے۔ ناچیز راقم الحروف کی رائے میں بے قابو سوشل میڈیا کی جملہ کمزوریوں و قباحتوں کے باوجود پاکستان میں اس کا کردار اپنا ہی کمال و جمال دکھاتے خیر کے کتنے ہی در کھولتا جائے گا کہ ذہن نشین کرلیا جائے کہ سیاسی و معاشی استحکام کی اولین قومی ضرورت ہو یا پاکستان جیسے سیکورٹی اسٹیٹ کو شدت سے مطلوب سوشل میڈیا قومی ابلاغی ضرورت ہر دو کو پورا کرنے میںسوشل میڈیا کا کردار مین اسٹریم میڈیا اور اقوام کےکلی ابلاغی اثاثے پر حاوی ہوتا جا رہا ہے۔ (جاری ہے)