پاکستان نیوی امن مشقیں منعقد کروانے کے ساتھ ساتھ اب بحری امن کو یقینی بنانے کیلئے پہلی بار امن ڈائیلاگ 2025کا بھی انعقاد کر رہی ہے جو اس بات کا ثبوت ہے کہ امیر البحر کی سربراہی میں پاک بحریہ تزویراتی صورت حال پر گہری نظریں جمائے ہوئے ہے ۔ابھی چند روز قبل کواڈ وزرائے خارجہ کا اجلاس واشنگٹن میں منعقد ہوا ہے مگر اس سب سے قبل دو دیگر اہم امور کو بیان کرنا چاہونگا۔ اول یہ کہ ایوان جناح اسلام آباد سے شاعر مشرق اور رومانیہ کے قومی شاعر کا مونیومنٹ جو بہت عرصے سے موجود تھا چوری ہو گیا ہے اور وہ دفتر خارجہ سے رابطہ کر کر کے تھک چکے ہیں مگر کوئی اس معاملہ کو سنجیدہ ہی نہیں لے رہا ۔دوسرا یہ کہ کچھ عرصہ قبل ایک یورپی ملک کے صدر نے خط بھیجا کہ پاکستان اور اس ملک کے درمیان کون کون سے نئے امور پر تعاون ہو سکتا ہے مگر کوئی اس خط کا جواب ہی نہیں دے رہا حالانکہ وہ ملک اپنی اہمیت رکھتا ہے ۔ ارباب اختیار کو ان دونوں امور پر فی الفور توجہ دینی چاہئے ۔لیکن اس کے تذکرہ کے ساتھ ساتھ ہمارے اپنی یا قریبی سمندری گزرگاہوں کے حوالے سے ٹرمپ کے قصر صدارت میں جلوہ افروز ہونے کے ساتھ ہی اہم ترین اقدام یہ سامنے آیا کہ کواڈ ممالک کے وزرائے خارجہ کا اجلاس واشنگٹن میں وقوع پذیر ہو گیا ۔ امریکی وزیر خارجہ روبیو کا یہ اپنا منصب سنبھالنے کا پہلا ہی دن تھا اور اس سے اس کی اہمیت کا اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ انہوں نے اپنی اولين مصروفیت کواڈ اجلاس کو قرار دیا ۔ کواڈ چار ممالک کا ایسا اتحاد ہے جو ہند بحر الکاہل کے معاملات پر چین کیلئے ایک خطرے کے طور پر دیکھا جاتا ہے ۔ امریکا کی سربراہی میں جاپان ، آسٹریلیا، انڈیا کی موجودگی ہی اس امر کو واضح کرتی ہے کہ اس اتحاد کا اصل ہدف چین ہے اور کیونکہ یہ ہند بحر الکاہل ایسا سمندری علاقہ ہے کہ جس کے اقتصادی اور تزویراتی اثرات سے پاکستان بھی لاتعلق نہیں رہ سکتا ہے اس لئے اس کواڈ کے اقدامات پر نظر رکھنا پاکستان کی قدرتی مجبوری ہے ۔ٹرمپ کے اقتدار میں آنے کے ساتھ ہی کواڈ وزرائے خارجہ اجلاس کو دنیا اس نقطہ نظر سے دیکھ رہی ہے کہ ٹرمپ کی پالیسی بیجنگ کے حوالے سے بالکل واضح ہے کہ وہ بیجنگ سے مقابلہ کرنے کی حکمت عملی پر عمل پیرا ہوگا۔اور چین کے ارد گرد کے ممالک کے چین سے اختلافات کو مزید بڑھاوا یا ہلہ شیری دینے کی جانب گامزن ہو گا۔ کواڈ کو ایک ایسی تنظیم کے طور پر لیا جاتا ہے جو ہند بحر الکاہل میں اپنے مشترکہ مفادات کا تعین کر چکی ہے اور ان مشترکہ مفادات سے مکمل طور پر وابستگی رکھتی ہے۔
ویسے تو یہ تنظیم بھی ہر تنظیم کی مانند یہی دعوے کرتی ہے کہ یہ ہند بحر الکاہل میں امن برقرار رکھنے کیلئے اور ہر طرح کی اقتصادی نقل و حرکت کو محفوظ بنانے پر یقین رکھتی ہے مگر حقیقت سب جانتے ہیں کہ یہ نقل و حرکت کو آزادانہ نہیں بلکہ اپنے کنٹرول میں رکھنے کیلئے متحرک ہے اور یہ صرف ہند بحر الکاہل تک محدود معاملہ نہیں بلکہ بحیرہ جنوبی چین پر بھی امریکہ اسکے ذریعے ہی اثر انداز ہو رہا ہے۔ خیال رہے کہ یہ سمندری گزرگاہ کوئی معمولی اقتصادی نقل و حرکت نہیں رکھتی بلکہ سالانہ تین ٹریلين ڈالر کی تجارت یہاں سے ہوتی ہے ۔ آسٹریلیا اسی صورت حال سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اے یو کے یو ایس دفاعی منصوبے کے ذریعے ایٹمی آبدوزیں اور سوپر سونک میزائل حاصل کرنا چاہتا ہے اور ان جوہری آبدوزوں اور سوپر سونک میزائلوں کے حصول کے حوالے سے حالیہ کواڈ اجلاس کے بعد آسٹریلیا کی وزیر خارجہ نے اپنے امریکی ہم منصب سے گفتگو کو انتہائی مثبت قرار دیا ہے۔ دوسرے لفظوں میں آسٹریلیا ایٹمی صلاحیت کی حامل آبدوزوں کو حاصل کر لے گا اور اس خطے میں ایک اور طرح کی ہتھیاروں کی دوڑ شروع ہو جائیگی، اسی وجہ سے چین نے اے یو کے یو ایس کے تحت آسٹریلیا کو یہ جنگی صلاحیت فراہم کرنے کے نتائج کے طور پر خطے میں ہتھیاروں کی دوڑ شروع ہونے کے خطرے کی طرف احساس دلايا ہے ۔ کواڈ وزرائے خارجہ اجلاس کے بعد امریکی وزیر خارجہ نے فلپائن کے وزیر خارجہ سے ٹیلی فون پر گفتگو کرتے ہوئے امریکہ کی اس حکمت عملی کا دوبارہ اظہار کیا کہ امریکہ فلپائن کے دفاع کیلئے پر عزم ہے اور یہ بات کھلی کتاب کی مانند ہے کہ فلپائن اور چین کے مابین بحیرہ جنوبی چین پر شدید اختلافات ہیں اور ایک دوسرے کی بحری افواج گزشتہ کچھ عرصے میں ایک دوسرے کے سامنے آتی رہی ہیں۔ چین کا بجا طور پر یہ مؤقف ہے کہ اس معاملہ میں اس علاقے سے باہر کی قوتیں مداخلت مت کریں مگر دوسری طرف یہ صورت حال ہے کہ جب ایک اعلیٰ امریکی سفارت کار ڈینيل کرٹن برنک نے بحیرہ جنوبی چین میں امریکہ کی انڈیا سے شراکت داری قائم کرنے کی حکمت عملی پر تقریر کی تو یہ صاف نظر آنے لگا کہ انڈیا اپنا مؤثر اثر و رسوخ ادھر بھی قائم کرنے کیلئے ہاتھ پاؤں مار رہا ہے ۔ اور اسی لئے انڈین نیوی کی تاریخ میں پہلی بار کسی ملک کو ایکٹو ڈیوٹی میزائل کارویٹ جنگی جہاز تحفہ میں دیا گیا اور یہ ملک ویت نام تھا جس سے انڈین عزائم کا بحیرہ جنوبی چین میں باآسانی اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ اب ہے تو یہ افسوس کا مقام کہ ہمارا ہمسایہ جو کچھ بھی کرتا ہے ہمیں اس کے حوالے سے چوکنا رہنا پڑتا ہے ورنہ ہونا تو یہ چاہئے کہ آزادی کے اتنے عرصے بعد تک ہم دونوں بلکہ تینوں ممالک باہمی اختلافات کو ماضی بنا چکے ہوتے ۔ بہرحال یہ تو جملہ معترضہ تھا۔ اب اس ساری صورت حال میں پاکستان نیوی کی جانب سے امن مشقوں کا انعقاد وقت کی ضرورت کے طور پر سامنے آیا ہے ۔ یہ مشقیں تو 2007 سے ہو رہی ہیں مگر اس بار اس میں ساٹھ ممالک حصہ لیں گے اور ان ممالک میں امریکہ بھی شامل ہیں۔
تاہم اس بار نیوی کے سربراہ نے ان مشقوں کی حیثیت کو دو چند کر دیا ہے کہ پہلی بار امن ڈائیلاگ 2025 کا بھی انعقاد کروایا جا رہا ہے کہ جس میں سیمینار وغیرہ کے ساتھ ساتھ دیگر ممالک کی بحری فوج کے افسران ایک دوسرے سے تبادلہ خیال کر سکیں گے اور ایک دوسرے کے نقطہ نظر کو سمجھ سکیں گے ۔ ماہرین کا خیال ہے کہ امن ڈائیلاگ 2025اور یہ مشقیں بحری تزویراتی امور کے حوالے سے پاکستان سمیت بہت سارے ممالک کے باہمی اشتراک کو وسعت دینے کا پیش خيمہ ثابت ہونگی۔ خاص طور پر ان حالات میں جب ہند بحر الکاہل سے جنوبی بحیرہ چین تک انڈین نیوی اپنے اثرات مرتب کرنے میں مصروف ہے۔