اے اہل نظر ذوق نظر خوب ہے لیکن
جو شے کی حقیقت کو نہ دیکھے وہ نظر کیا
ہم علامہ اقبال کو مفکر پاکستان تو کہتے ہیں، حکیم الامت بھی مگر ان کی تشخیص سے اتفاق کرتے ہیں نہ ان کی تجویز سے۔ یا تو ہم اپنے آپ کو اہل نظر ہی نہیں سمجھتے۔ اس لیے ذوق نظر پر بھی یقین نہیں رکھتے۔ اور اس پیغام کو بھی اپنے لیے خیال نہیں کرتے کہ ہم شے کی حقیقت کو دیکھیں۔
پہلے ہر گھر میں کوئی ایک فرد ایسا ہوتا تھا جو جستجو کا قائل ہوتا تھا۔ پورے گھر کو اقبال کی نظر سے دیکھتا تھا۔ اس ایک فرد کی موجودگی پورے گھر کو منظم اور مستحکم رکھتی تھی۔ ہم ایک عمر سے سطحی زندگی گزار رہے ہیں۔ تہ نشیں امواج میں کیا کچھ مخفی ہے۔ ان تک نظر ہی نہیں جاتی۔ مطلق العنان رویے ہمیں تحقیق سے روکتے ہیں۔ زندگی جیسی تیسی بسر کرنے پر مجبور کرتے ہیں۔
عدیم راوی یاد آتے ہیں:
ہم درختوں کی طرح خاموش اگتے ہیں یہاں
وقت بدلتا ہے ہمارے پیرہن
درختوں کی طرح خاموش اگتے اس معاشرے میں ڈاکیہ ایک بھاری پارسل لے کر آتا ہے۔ اس میں اشاریے امڈ امڈ کر باہر آرہے ہیں۔ معاصر۔ انٹرنیشنل 1979تا 2010۔ مدیر اعلیٰ۔ عطاء الحق قاسمی۔ ماہنامہ برہان دہلی۔ جولائی 1938تا اپریل 2001۔ ماہنامہ الرحیم۔ الولی۔ حیدر آباد۔ جون 1963تا جون 2007۔ علامہ غلام مصطفی قاسمی چیئر۔ سندھ یونیورسٹی جام شورو۔ سہ ماہی’صحیفہ‘۔ مجلس ترقی ادب لاہور۔ 50سالہ اشاریہ۔ ماہنامہ ’حق چار یار‘ لاہور۔ فروری 1989تا دسمبر2009۔ تین علمی مجلّات۔ صریر خامہ۔ پرکھ۔ تحقیق کا اشاریہ۔ 650مصنّفین کے 1200سے زائد مقالات و نگارشات کا 72موضوعات پر مشتمل شمارہ وار۔ موضوع وار۔ اور مصنّف وار اشاریہ۔ ماہنامہ ’پیغام آشنا‘ کے دس سال۔ فروری 2000تا مارچ 2010۔ ماہنامہ ’فقہ اسلامی‘ کراچی۔ موسس پروفیسر ڈاکٹر نور احمد شاہتانہ۔ اپریل 2000 تا دسمبر2013۔ ماہنامہ ’الرحیم‘ شاہ ولی اللہ اکیڈمی جی سندھی رسالی ’الرحیم‘ جو تعارف ۔ (شاہ ولی اللہ اکیڈمی کے سندھی رسالے ’الرحیم‘ کا تعارف اور اشاریہ)۔ مجلّہ الثقافۃ الاسلامیہ۔ شیخ زاید اسلامک ریسرچ سینٹر کراچی یونیورسٹی۔ 2004ءتا 2009ء۔
مرحبا۔ جناب شاہد حنیف،ایک لگن ہے، ایک دھن ہے، ایک جنون ہے۔
زمانہ عقل کو سمجھا ہوا ہے مشکل راہ
کسے خبر کہ جنوں بھی ہے صاحب ادراک
ایسے لوگ ہی ہم جیسے بے بس، غفلت کے شکار، کوتاہ ہیں سماجوں کا کفارہ ادا کرتے ہیں۔ ہمارے حکمرانوں، منتخب، غیر منتخب۔ ہمارے کلیدی عہدیداروں، قومی سیاسی جماعتوں کے رویے تو ایسے ہوتے ہیں کہ ایسی قوموں کا مقدر معدومی ہی ہوتا ہے۔ موہنجو داڑو، ہڑپہ، مہر گڑھ دیکھ کر تو کسی ترتیب، تہذیب، تزئین کا احساس ہوتا ہے۔ ہمارے کھنڈرات دیکھ کر تو شاید آنے والے محققین یا ماہرین آثار قدیمہ کو ریت ہی ریت نظر آئے۔ مگر قابل تحسین ہیں شاہد حنیف، ان کے رفقا اور ایسے ہی دوسرے اشاریہ ساز جو گمنام ہیں۔ مگر بلوچستان، سندھ، پنجاب، جنوبی پنجاب، خیبر پختونخوا، آزاد کشمیر، گلگت بلتستان میں خاموشی سے اپنے تحقیقی جنون میں محو رہتے ہیں۔ انہیں سپریم کورٹ میں فاضل ججوں کے درمیان کشمکش سے کوئی غرض ہوتی ہے نہ فارم 47-45ان کی توجہ کاٹتے ہیں۔ نہ ہی یوٹیوبرز کے انکشافات ان کے اشاریے متاثر کرتے ہیں۔ اگر آپ غور کریں تو ایسے سنجیدہ، متوجہ اور منسلک ہم وطنوں کی وجہ سے ہی قومیں معدوم ہونے سے بچ جاتی ہیں۔
آج زندگی میں جتنی آسانیاں میسر ہیں، جتنی تیز رفتاری ہے اور جتنی بھی تنظیم ہے۔ وہ تحقیق کی بدولت ہی ہیں، تحقیق تنظیم کا سر چشمہ بنتی ہے۔ تحقیق ہی تازگی کے جھونکے لاتی ہے۔ تحقیق سے ہی تخلیق کے جھرنے پھوٹتے ہیں۔ میں ان اوراق سے گزر رہا ہوں۔ ’معاصر‘ عطاء الحق قاسمی صاحب بہت انہماک اور عشق سے نکالتے رہے ہیں۔ اس کا شمار اُردو ادب کے اعلیٰ معیاری جریدوں میں ہوتا ہے۔ اب پھر باقاعدگی سے اس کی اشاعت کا آغاز ہوا ہے۔
اشاریہ سازی، اب باقاعدہ ایک صنف بلکہ صنعت کا درجہ اختیار کرگئی ہے،اسے تحقیق کے زمرے میں ہی شُمار کیا جائے گا۔ آسان راستہ تو یہ ہے کہ کوئی مدیر، مالک یا ادارہ اپنا تمام اثاثہ شاہد حنیف کے سپرد کردے اور اشاریوں کے ساتھ واپس لے۔ لیکن جب شاہد حنیف خود ادبی رسائل کی تلاش میں لائبریریوں کی خاک چھانتے ہیں، پرانی کتابوں کے بازاروں میں گھومتے ہیں، ان کی خستہ مالی بوسیدگی کے باوجود ان میں محاسن ڈھونڈتے ہیں، تو یہ ایک عام ریسرچ نہیں، یہ عشق کا درجہ اختیار کر لیتی ہے۔
اشاریہ سازی تہذیبوں میں تو تسلسل کی بنیاد بنتی ہے، عشرہ در عشرہ کسی سماج کی فکر و نظر، عمل و حرکیات کا آئینہ ہوتی ہے۔ اسے صرف ادبی،علمی رسائل تک ہی محدود نہ سمجھا جائے۔ زندگی کے ہر شعبے کا اشاریہ اس خطے کی تاریخ کا چہرہ بن جاتا ہے۔ اس علاقے کا ماضی وہاں کی تحریکیں، کامیابیاں ناکامیاں سمجھنے میں مدد لے سکتا ہے۔ یہ پرنٹ اور ڈیجیٹل دونوں میں ساتھ ساتھ چلتا ہے بلکہ ڈجیٹل ٹیکنالوجی میں تو یہ اور آسان اور تیز رفتار ہوسکتا ہے۔ اشاریہ ساز اپنی زندگی میں بہت منظّم، بہت سچے، بہت حقیقت پسند ہوتے ہیں۔ ان کے سامنے حقائق ہوتے ہیں اس لیے وہ لفاظی سے، جذباتیت سے، شور و غل سے اپنا موقف نہیں مسلط کرتے۔ وہ کچھ چھپانے کی بجائے کچھ بے نقاب کرنا چاہتے ہیں،سب سے زیادہ مستفید ہوتے ہیں، یونیورسٹیوں کے طلبہ و طالبات۔
مہذب معاشروں میں تو ’اشاریہ سازی‘ ہر شعبے میں ہو رہی ہے۔ اگر غور کیا جائے تو آج جس انفارمیشن ٹیکنالوجی کا غلبہ ہے یہ بھی کتابیات۔ اشاریہ سازی اور تحقیق کے نتیجے میں صورت پاسکی ہے۔ شاہد حنیف سے ابھی ملاقات نہیں ہوئی ہے۔ فون پر ہی رابطہ رہا ہے۔ ان کی بے تابی، سیمابی کیفیت بہت متاثر کرتی ہے۔ ہم تو تخلیق کے مرحلوں سے ہی لطف اندوز ہوتے ہیں مگن رہتے ہیں ۔ یہ ہمیں تحقیق کی سمت راغب کرتے ہیں۔ ہماری کتابوں پر بھی ان کی نظر ہے۔ ان کا اشاریہ بھی مرتب کرنا چاہتے ہیں۔ کتنی اہم کتابیں ہوں گی جو اشاریوں سے محروم رہی ہوں گی اور وہ ماہ و سال کی گرد میں ہی گم ہو گئیں، اکادمی ادبیات پاکستان، نیشنل بک فائونڈیشن، ادارہ فروغ قومی زبان، یونیورسٹیوں کو اشاریہ سازی کو باقاعدہ ایک موضوع بنا کر طالب علموں کو اس کی تربیت دی جائے۔ ہمارے معاشرے میں افراتفری ہے، انتشار ہے، بے سمتی ہے، ایسے میں انڈیکسنگ، اشاریہ سازی بہت ضروری ہے۔ اس سے ایک حقیقی تخمینہ بھی ہو سکتا ہے کہ ہم کیا کرسکے۔ کیا نہیں کرسکے۔
انشاء اللہ کسی سہانے موسم میں داتا کی نگری جانا ہو گا تو شاہد حنیف کی تحقیق کی دنیا بھی دیکھیں گے۔ وہ اپنی ٹیم کے ساتھ 70 سے زائد اردو رسائل کے اشاریے مرتب کر چکے ہیں۔ پاکستان کو تربیت کی ضرورت ہے، تعمیر نو درکار ہے، یہ ماضی کے اشاریوں سے ہی ممکن ہو سکتی ہے۔