• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاک فوج کے ملکی خودمختاری اور سالمیت کے دفاع کیلئے پوری طرح تیار رہنے کے اعلان کی صورت میں یہ عزم اور انتباہ ایک بار پھر سامنے آیا ہے کہ عساکرِ پاکستان ملکی خودمختاری اور دفاع کیلئے پوری طرح تیار ہیںاور کسی بھی مہم جوئی کا پاکستان مکمل طاقت کیساتھ بھرپور جواب دیگا۔ بھارتی وزیر دفاع اور آرمی چیف کی طرف سے ماضی میں وقتاً فوقتاً آتے رہنے والے دھمکی آمیز بیانات کی طرح حال ہی میں آئی گیدڑ بھبکیوں، نئی دہلی کی طرف سے بڑے پیمانے پر اسلحے کی خریداری، پاکستان میں دہشت گردی کیلئے آنیوالے در اندازوں کی اسلحی مالی اور فنی اعانت کے تناظر میں مذکورہ عز م اور انتباہ کا بار بار دہرایا جاناخطے کے امن کا لازمی تقاضا ہے۔ یہ صورت حال 1947ء میں برطانوی ہند کی دو آزاد ملکوں پاکستان اور بھارت کی صورت میں تقسیم کے وقت سے جاری ہے۔برٹش انڈیا میں رہنے والے دو بڑے مذہبی گروپوں کے اختلافات دور کرنے کے لئے قائداعظم محمد علی جناح اور موہن داس کرم چند گاندھی جی کی سطح کے چوٹی کے رہنما یہ وژن رکھتے تھے کہ دونوں ممالک امریکہ اور کینیڈا کی طرح امن و تعاون کیساتھ مل جل کر ترقی کی راہیں طے کریں گے مگر بھارتی قیادت میں موجود انتہا پسندوں اور توسیع پسندوں کی سوچ کا نتیجہ مسلمانوں کے بڑے قتل عام کے علاوہ پاکستان سے الحاق کرنے والی ریاستوں حیدرآباد دکن، جونا گڑھ، مناددر، مانگرول پر بزور طاقت قبضے کی صورت میں ظاہر ہوا۔ کشمیر پر بھی بھارت نے ایک فرضی معاہدے کے نام پر قبضہ کرنا چاہا مگر ریاستی عوام کی مسلح مزاحمت اور قبائلی عوام کی اعانت نے پانسہ پلٹ دیا اور ایک حصہ آزاد کشمیر کی صورت میں بھارتی قبضے سے محفوظ ہے۔ اس باب میں تفصیل سے بچنے کے لئے اتنا کہا جاسکتا ہے کہ ریاستی عوام کی مسلح مزاحمت کے سامنے اپنی فوج کے ہتھیار ڈالنے کے خطرے کو سامنے دیکھ کر بھارت جنگ بندی کے لئے اقوام متحدہ میں گیا جس کی قراردادوں کے مطابق عالمی ادارے کی زیرنگرانی رائے شماری کے ذریعے یہ فیصلہ ہونا تھا کہ ریاست کے لوگ پاکستان اور بھارت میں سے کس کے ساتھ انضمام چاہتے ہیں۔ بھارت کے بعد میں منکر ہونے کے باعث رائے شماری تاحال نہیں ہوسکی جبکہ ہتھیاروں کی ایسی دوڑ شروع ہوگئی جس میں مسئلہ کشمیر ایٹمی فلیش پوائنٹ بنا نظر آتا ہے۔ یہ مسئلہ دونوں پڑوسی ملکوں اور خطے ،بلکہ عالمی امن کے لئے اس وقت تک خطرہ بنا رہے گا جب تک اسے پرامن طور پر حل نہیں کرلیا جاتا ۔ 5اگست 2019ء کو بھارت نے کشمیر کو اقوام متحدہ کی طرف سے متعین خصوصی حیثیت کی آئینی شقیں 370اور 35اے ختم کرکے صورت حال کو زیادہ سنگین بنا دیا۔پاکستان کی عسکری قیادت نے جہاں یوم یکجہتی کشمیر پر کشمیر کے پُرعزم لوگوں کے ساتھ یک جہتی کرتے ہوئے بھارت کی جانب سے مقبوضہ جموں و کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی شدید مذمت کی وہاں موجودہ صورت حال کو خطے کے امن کے حوالے سے سنگین خطرہ قرار دیا ہے۔ آرمی چیف جنرل سید عاصم منیر کی زیر صدارت 267ویں کور کمانڈرز کانفرنس نے صورت حال کے جائز ے کے بعد درست طورپر بھارت سے آنے والے کھوکھلے بیانات کا مسکت کا جواب دیا ۔فورم نے بلوچستان میں احساس محرومی کے من گھڑت بیانیے کی نفی کے لئے سماجی و اقتصادی ترقی کے اقدامات کرنے کی ضرورت اجاگر کی ہے۔ کابل حکومت سے مطالبہ کیا گیا کہ فتنتہ الخوارج کی موجودگی سے انکار کرنے کی بجائے اس فتنے کیخلاف ٹھوس کارروائی بروئے کار لائی جائے۔ اس باب میں آرمی چیف کی یہ وضاحت پاکستان عوام کیلئے حوصلہ افزا ہے کہ عسکری قیادت قوم کو درپیش کثیر الجہتی چیلنجوں سے مکمل طور پر آگاہ ہے اور پاک فوج عوام کی بھرپور حمایت کے ساتھ اپنی آئینی ذمہ داری پوری کرنے کیلئے پرعزم ہے۔

تازہ ترین