میں اپنی عمر کی آٹھویں دہائی میں اللہ تعالیٰ کے فضل سے لکھنے پڑھنے میں اسی طرح متحرک اور فعال ہوں جیسے جب آتش جوان تھا۔ میں اکثر سوچتا ہوں کہ آتش کب جوان نہیں تھا۔ ابھی ہمارے ہمدم، محقق، درد مند پاکستانی، قابل رشک حافظے والے ڈاکٹر سید جعفر احمد صبح سویرے ہفت روزہ قندیل لاہور کے 1965ء کے ایک شُمارے میں شائع مضمون کے دو اوراق دے کر گئے ہیں۔ وہ اکثر ایسے خزانوں اور قیمتی تحائف سے نوازتے رہتے ہیں۔ مضمون کا عنوان ہے ۔’ان میں ہر فرد ایک کہانی ہے‘۔ میرپور میں مہاجرین کشمیر کے درمیان چند لمحے۔ تحریر محمود شام۔ تصاویر فاروق احمد۔ تاریخ ہے۔ 12-12-1965خود پڑھ کر حیران ہورہا ہوں کہ ہماری سوچ میں اس وقت بھی سمت ایک تھی۔ اردو بھی بہت رواں دواں۔
ہفت روزہ ’قندیل‘۔ ہفت روزہ ’اخبار جہاں‘۔ ہفت روزہ ’معیار‘۔ ہفت روزہ ’الفتح‘ یہ سب ڈاکٹر سید جعفر احمد کی ذاتی لائبریری میں باقاعدہ مجلد فائلوں میں بھی موجود ہیں۔ان دنوں سب کچھ بکھر رہا ہے اور بہت بری طرح کانپ جاتا ہوں کہ اس ملبے کو کون سمیٹے گا اور کیسے۔ ہر گزرتے لمحے کے ساتھ کرچیوں اور دھجیوں میں اضافہ ہورہا ہے۔ اپنی عقل استعمال کرنے پر غیر تحریری پابندی لگی ہوئی ہے۔ آپ غور کیجئے کہ ایک عظیم مملکت جس میں 24کروڑ جیتے جاگتے انسان آباد ہیں۔ جنکے پس منظر میں کتنے ہزاریوں اور کتنی صدیوں کی سوچیں ہیں، کتنی ثقافتیں ہیں، کتنا مالا مال تمدّن ہے اور پھر 1500 سال سے پیغمبر آخر الزماں ﷺ اور اللہ تعالیٰ کی آخری کتاب قرآن مجید، احادیث، سنت رسولؐ کی فضیلتیں ہیں۔ یہاں دوسرے مذاہب کے پیروکار بھی ہیں۔ ایک گلدستہ ہے۔ مذاہب،مسالک، زبانوں، شاعری، داستانیں، قصص کا۔ ایک پاکستانی ذہن میں کتنے خزانے ہیں، اکثریت دردمند ہے، دیانت دار ہے، اپنی امانتوں کی حفاظت کرنے والی،اپنے اکابر اور بزرگوں کا احترام کرنے والی۔ لیکن رفتہ رفتہ ریاست کے ادارے اور مشینری سے ان کروڑوں دماغوں کا رابطہ مسلسل کٹ رہا ہے۔
صدیوں کی تحقیق کے بعد اکثریت کی عقل سے ریاست کے مفادات کے تحفظ، ان کے استحکام کیلئے جمہوری نظام کا راستہ تلاش کیا گیا۔ وہ صدارتی نظام ہو کہ پارلیمانی یا متناسب نمائندگی کہ ہر معینہ مدت کے بعد انتخابات ہوں، استصواب رائے، ایسی پارٹی کو مینڈیٹ دینے کا دن، جو وقت کے تقاضے پورے کرنے کیلئےآئندہ پانچ دس سال کا روڈ میپ دے رہی ہو۔ انتخابی مہم میں پارٹیوں کو بھرپور موقع ملتا ہے، جلسوں جلوسوں،ریلیوں کے ذریعے کہ وہ کسی ملک کو درپیش بیماریوں کی تشخیص کرتی ہیں اس کی دوا تجویز کرتی ہیں سرجری کی ضرورت ہو تو اسکا اعلان کرتی ہیں۔
دو دن بعد الیکشن 2024ءکی برسی آرہی ہے۔ 8فروری 2024ءکو تمام مصائب، مشکلات،چیلنجوں، الجھنوں،قدغنوں کے بعد واہگہ سے گوادر تک پاکستانیوں کو موقع ملا تھا کہ وہ اپنی پسند کی پارٹی کو مینڈیٹ دے سکیں۔ حالانکہ ایک پارٹی سے اس کا انتخابی نشان بھی چھینا جاچکا تھا۔مینڈیٹ کسی کو ملا،حکومت کسی کو۔ ایک سال ہوگیا ہے۔ اکثریت کی عقل کا استعمال نہیں کیا گیا۔ ان کی سوچ کا اطلاق نہیں ہوا۔ اسلئے اب تک استحکام کے آثار نظر نہیں آرہے ہیں۔ دنیا تو اپنی ذہانت کے بھرپور استعمال کے بعد اسکی بنیاد پر مصنوعی ذہانت کے استعمال سے فائدے اٹھارہی ہے۔ چین نے اپنی عقل استعمال کرکے ڈیپ سیک کے ذریعے امریکہ کے کروڑوں ڈالر ڈبودیے ہیں۔دنیا کی ترقی یافتہ ریاستوں میں فطری ذہانت اور مصنوعی ذہانت میں مقابلوں کیلئے تحقیق در تحقیق ہورہی ہے۔ یونیورسٹیاں، تحقیقی ادارے اور تجربہ گاہیں جستجو میں مصروف ہیں، دریافتیں ہورہی ہیں، ایجادات لائی جارہی ہیں، کوشش اور خواہش یہ ہے کہ انسانوں کی اکثریت کی زندگی میں آسانیاں ہوں۔ اللہ تعالیٰ نے انسانوں کو جن نعمتوں سے نوازا ہے۔ معدنی، زمینیں،زرعی۔ ان سے کس طرح فائدہ اٹھایا جاسکتا ہے۔ فصلوں کی پیداوار فی ایکڑ کیسے بڑھائی جاسکتی ہے۔ درآمدات میں کمی کیسے لائی جاسکتی ہے۔ برآمدات کیسے بڑھائی جاسکتی ہیں۔ پاکستان میں ہم خیراتی دسترخوانوں کی تعداد بڑھاتے جارہے ہیں۔ کارخانے مسمار کیے جارہے ہیں۔ ان کی جگہ شاپنگ مال تعمیر کررہے ہیں۔ ہماری مینو فیکچرنگ بند ہورہی ہے۔ تو ظاہر ہے شاپنگ مراکز کی دکانیں بدیشی مال سے بھری ہوئی ہونگی۔ صنعتی ترقی کا عمل تو روکا جارہا ہے۔ ہزاروں افراد بے روزگار ہورہے ہیں۔ انکی ذہنی صلاحیتیں، توانائیاں بے کار ہورہی ہیں، ٹریڈ یونینیں کمزور ہورہی ہیں۔ اس سے بڑا المیہ یہ ہے کہ پاکستان کی زرخیز ترین زمینوں سے فصلیں چھین کر وہاں بھی کمرشل پلازا، شاپنگ مارکیٹیں بنائی جارہی ہیں، اناج کی پیداوار رک رہی ہے، ہریالی کا گلا گھونٹا جارہا ہے، اس کو منظّم انداز سے نہیں روکا جارہا ہے۔
یونیورسٹیوں میں بھی عقل کا استعمال ممنوع ہے۔ حکمران طبقوں کی اپنی آفاقی، ملکی، علاقائی مجبوریاں ہوتی ہیں۔ انہیں قابل عمل منصوبے،روڈ میپ، یونیورسٹیاں فراہم کرتی ہیں۔ جہاں اساتذہ ہر مسئلے اور موضوع کا ہر پہلو سے تجزیہ کرتے ہیں۔ عالمی علاقائی صنعتی اور زرعی رفتار کا جائزہ لیا جاتا ہے۔ اپنے ملک کے صنعتی زرعی، ذہنی امکانات پر غور کیا جاتا ہے۔ پھر قوم کو نوید دی جاتی ہے کہ بیداد کے دن تھوڑے ہیں، پیدا کہیں بہار کے امکاں ہوئے تو ہیں۔ لکھنے والے خون دل میں انگلیاں ڈبوکر لکھتے ہیں۔ جنوں کی حکایات خونچکاں رقم کی جاتی ہیں۔ ہر چند اس میں ہاتھ قلم ہوں۔ اب تو سوشل میڈیا چھپر پھاڑ کے ہمارے دامن میں آگرا ہے۔ اس نے اظہار کے راستوں کی فراوانی عطا کردی ہے۔ ہر شخص کے پاس ایک دیوار ہے۔ جس پر کوئی بھی لکھ سکتا ہے۔ عقل کے مظاہرے ہورہے ہیں۔بہت کچھ بکھر چکا ہے، اب وقت آگیا ہے، سمیٹنے کا، استحکام کا، جمع کرنے کا۔ پاکستان کے مقدر میں بھی خوشحالی لکھی جاچکی ہے، اس کیلئے ہمیں خود کو منظم کرنا ہے۔ اپنے ذہنوں میں جھانکنا ہے۔ غیر کی عقل نہیں اپنی عقل کو استعمال کرنا ہے۔ جاگیرداری زوال پذیر ہے۔ سرداری کا وقت لد گیا ہے۔ اس تہذیب کی حامل ریاستیں اقوام عالم میں اپنی جگہ نہیں بنا پاتی ہیں۔ جن کی ذمہ داری سمیٹنے کی ہے۔ وہ خود بکھرے ہوئے ہیں۔ 1985ءسے جس طرح اس حسین، زرخیز،بے مثال ریاست کے معاملات چلائے جارہے ہیں ۔ ان سے انتشار زیادہ پھیل رہا ہے۔ استحکام نہیں آرہا ہے ۔ میں تو کئی بار کہہ چکا ہوں کہ جو سیٹ اپ کسی اپ سیٹ کے نتیجے میں وجود میں آتے ہیں، وہ کبھی سیٹ نہیں ہوپاتے۔ المیوں کی، سانحوں کی معروضی تحقیق نہیں ہوتی ہے، اگر ہوتی ہے تو نتائج عام نہیں ہوتے، اسلئے ریاست کو سنبھلنے کا موقع نہیں ملتا۔ ہمارے سامنے دو مثالیں ہیں۔ جنوبی افریقہ ۔جہاں نسلی تصادم بھی تھا، تہذیبی مخاصمت بھی لیکن وہ صداقت اور مفاہمت کا کمیشن قائم کرکے سنبھل گیا۔ مائنا مار(برما) ابھی تک سنبھل نہیں سکا۔ بہتر مستقبل کیلئے جو بھی ضروری ہے۔ وہ کرنا پڑے گا۔ تمام انسان عزت نفس، وقار اور حقوق کے لحاظ سے آزاد اور یکساں پیدا ہوتے ہیں۔ ضرورت ہے کہ سب کی عقل اور توانائیاں ملک کیلئے استعمال کی جائیں۔ ملک کو مضبوط اور مستحکم بنایا جائے۔