• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ڈونلڈ ٹرمپ کے دوسرے دور کے آغاز سے ہی یوں محسوس ہورہا ہے جیسے لبرل اِزم کی سانسیں اُکھڑ رہی ہیں اور بہت جلددنیا پر حکمرانی کرنے والے اس نظریئے کی موت واقع ہوسکتی ہے۔ لبرل ازم کا نظریہ دراصل بادشاہت اور مذہب کے ظلم و استبداد کے مقابل سامنے آیا۔17ویں صدی کے برطانوی مفکر John Lockeکو لبرل ازم کا بانی سمجھا جاتا ہے جنہوں نے فرد کی آزادی کا فلسفہ پیش کیا۔حریت فکر کے اس سیاسی نظریئے کو بعد ازاں 18ویں صدی میںفرانس میں روسواور جرمنی میںEmanuel Kantنے آگے بڑھایا اور یہ استدلال اختیار کیا گیا کہ مکمل آزادی تو لاقانونیت اور انارکی کی طرف لیکر جائے گی لہٰذا سوشل کنٹریکٹ یعنی عمرانی معاہدے کے ذریعے افراد اپنی آزادی کا کچھ حصہ ریاست کواس شرط پر سونپ دیں کہ حکومتیں اس کا غلط استعمال نہیں کریں گی اور جان ومال ،عزت وآبرو اوربنیادی انسانی حقوق جیسا کہ آزادی اظہار کی حفاظت کی جائیگی ۔البتہ لبرل ازم کے گاڈ فادر جان لاک کے ہاںبھی شخصی آزادیوں کا تصور تضادات کا شکار تھا۔بہرحال بعد ازاں لبرل اِزم کا تصور بتدریج بہتر ہوتا چلا گیا۔

پاکستان میں برادری اِزم سے کنفیوژن اِزم تک ان گنت ’’اِزم‘‘ ہیں مگر ان سے کسی کو کوئی پرخاش نہیں، بس لبرل اِزم کا ذکر ہوتے ہی سب بدک جاتے ہیں۔ یوں محسوس ہوتا ہے جیسے کوئی گالی دی گئی ہے۔جب میں اصحاب علم و خرد سے لبرل اِزم کا مفہوم سمجھنے کی کوشش کرتا ہوں تو ایک مختلف اور دلکش خاکہ ا بھرتا ہے۔ جدید لبرل اِزم کیا ہے؟ رابرٹ فراسٹ سے پوچھا جائے تو جواب ملتا ہے ’’اس وسیع الذہن شخص کو لبرل کہتے ہیں جو کسی لڑائی میں اپنا رُخ خود متعین کرتا ہے‘‘ اسپینش مصنف اورتیگا گیست José Ortegay Gassetنے اپنی شہرہ ء آفاق کتاب The revolt of the masses میں تو الفاظ کا حق ادا کر دیا۔ لبرل اِزم کا فلسفہ بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں ’’فیاضی جب اپنی انتہا کو پہنچتی ہے تو لبرل اِزم کہلاتی ہے۔ اپنے دشمن بالخصوص کمزور دشمن کے ساتھ اشتراکِ وجود کے عزم کا اظہار لبرل اِزم ہے۔‘‘

لبرل ازم کی بنیاد آزادی اور مساوات کے اصول پر رکھی گئی تھی یعنی سب انسانوں کو نسل،مذہب،قومیت اور علاقائیت سے قطع نظر یکساں حقوق حاصل ہوں گے۔مگر گزشتہ چند دہائیوں کے دوران پاپولزم کی لہر اُٹھی جس نے دیکھتے ہی دیکھتے ایک بہت بڑے سونامی کی شکل اختیار کرلی ۔پاپولسٹ کہتے ہیں ملازمتوں اور وسائل پر سب انسانوں کا حق نہیںبلکہ صرف اپنے لوگوں کو فوقیت دی جائے ۔امیگریشن پر پابندی ہو ،غیر ملکی تارکین وطن کو نکال باہر کیا جائے ،دنیا بھر میں فلاحی منصوبوں پر خرچ کرنے کے بجائے اپنے لوگوں کا معیار زندگی بلند کیا جائے اور فری ٹریڈ کے بجائے ڈومیسٹک پروڈکشن کو فروغ دیا جائے ۔پاپولزم کے اس بیانئے کی بنیاد پر برطانیہ کی یورپی یونین سے علیحدگی سے متعلق بریگزٹ نامی ریفرنڈم کو کامیابی ملی۔امریکہ ،پولینڈ اور ہنگری میں پاپولسٹ لیڈرز نے انتخابات میں کامیابی حاصل کی۔ ٹرمپ نے پہلے ہی دن امریکہ کی WHOسے علیحدگی کا اعلان کردیا۔صرف یہی نہیں بلکہ ٹرمپ نے WHOسے علیحدگی کے بعد اقوام متحدہ کی انسانی حقوق سے متعلق تنظیم UNHRC،یونیسکو اورUNRWAسے الگ ہونے سے متعلق ایگزیکٹو آرڈر پر بھی دستخط کردیئے ہیں۔ ان عالمی اداروں کے فنڈز بندہو جانے کے بعد دنیا غیر محفوظ ہو جائے گی مگر پاپولسٹ لیڈر ز کہتے ہیں دنیا جائے بھاڑ میں ،ہم تو اپنے ملک کی بہتری کے ذمہ دار ہیں۔دنیا کی پہلی لبرل سوسائٹی امریکہ میں اب لبرل ہونا قابل فخر بات نہیں بلکہ اسے طعنہ دینے کیلئےاستعمال کیا جاتا ہے ۔امریکہ میں لبرلز پر Left Wing Progressive یعنی بائیں بازو کے ترقی پسند کی پھبتی کسی جاتی ہے ۔پاپولزم کے حامی کہتے ہیں کہ کمرشلائزیشین اور گلوبلائزیشن کے باعث بیشتر امریکی شہری ترقی کی دوڑ میں پیچھے رہ گئے ہیں ۔لبرل ازم کے زوال اور انحطاط کے اندیشے کس قدر حقیقی ہیں اس بات کا اندازہ یوں لگایا جاسکتا ہے کہ 1843ءسے اب تک یعنی 182سال سے شائع ہونے والا ہفت روزہ اکانومسٹ جسے لبرل ازم کا ترجمان سمجھا جاتا ہے ،اس میں ستمبر 2018ء کی اشاعت میں لبرل ازم کو درپیش چیلنجز بیان کرتے ہوئے اکیسویں صدی کیلئے لبرل ازم کی تشکیل نو اور احیا کی بات کی گئی ۔دی اکانومسٹ میں شائع ہونیوالے مضمون کا عنوان تھا ’’Reinventing liberalism for the 21st century‘‘۔

دیگر تمام نظریات اور سیاسی فلسفوں کی طرح لبرل اِزم میں بھی خامیاں ہونگی مگر سوال یہ ہے کہ اس کا متبادل کیا ہے ؟کیا پاپول اِزم سے کسی قسم کا خیر برآمد ہوسکتی ہے؟اب جبکہ یہ دنیا گلوبل ورلڈ بن چکی ہے تو کیا قومیت کا جزیرہ بنا کر یہ اُمید کی جاسکتی ہے کہ کوئی طوفان یا سیلاب آئے گا تو اس کے اثرات سے یہ ملک محفوظ رہ سکے گا؟جس طرح ناقص جمہوریت کا حل مزید جمہوریت ہے ،اسی طرح ملاوٹ شدہ لبرل ازم کا حل بھی خالص لبرل ازم ہے۔

تازہ ترین