• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

امریکہ میں صدارتی انتخابات میں سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی دوبارہ کامیابی نے دنیا خصوصاً امریکہ کے مستقبل کے بارے میں امیدوں اور خدشات کے نئے دروازے کھول دئیے ہیں۔ انتخابی مہم کے دوران انکے کئی متنازع بیانات نے ان کے حلیفوں اور ہمسائیوں کو خاصی تشویش میں مبتلا کر دیا ہے جس میں ان کا کینیڈا کو امریکہ میں ضم کرنے کا اعلان خصوصی اہمیت کا حامل ہے۔ اسکے علاوہ یورپی یونین اور نیٹو کے حوالے سے امریکی امداد میں کٹوتی اور یوکرائن کی جنگ کو ختم کرنا اور چین کے بڑھتے ہوئے اثرو رسوخ کو روکنے کے اقدامات کے اعلان بھی موضوعِ بحث بنے ہوئے ہیں۔ صدر ٹرمپ چونکہ ایک غیر روایتی سیاست دان ہیں جو کبھی بھی، کچھ بھی کر سکتے ہیں۔ لہٰذا پوری دنیا میں اُن کے دورِ صدارت کے دوران ’’کچھ بھی غیر معمولی‘‘ ہونے کے امکانات کے خدشات کا اکثر اظہار کیا جا رہا ہے۔ ان کا ہمسایہ ملک کینیڈا تو صدر ٹرمپ کی دھمکیوں سے اس قدر ڈسٹرب ہوا ہے کہ کینیڈین برآمدات پر 25فیصد ڈیوٹی کے مجوزہ اعلان کے بعد پہلے وہاں کے وزیرِ خزانہ نے استعفیٰ دے دیا ہے اور اس کے بعد کینیڈ ین وزیرِ اعظم جسٹن ٹروڈونے بھی مستعفی ہونے کا اعلان کر دیا ہے۔ خلیج میکسیکوکا نام تبدیل کرکے خلیج امریکہ رکھنے اور گرین لینڈ پر بزورِ طاقت قبضہ کرنے کی دھمکیوں نے بھی ہر طرف ہلچل پیدا کر دی ہے۔ کچھ سیاسی پنڈتوں کا خیال ہے کہ صدر ٹرمپ ایک سیاستدان سے زیادہ اداکار ہیں۔ لہٰذا وہ اپنے ووٹروں اور عطیہ دہندگان کی ہمدردیاں حاصل کرنے کیلئے نت نئے شگوفے چھوڑتے رہتے ہیں۔ لیکن عملی طور پر وہ بہت سے اپنے اعلان کردہ اقدامات سے ہٹ کر اقدامات کریں گے۔ وہ اس حقیقت سے باخبر ہیں کہ چینی مصنوعات امریکی درآمدات کے تقریباََ 80فیصد کے قریب ہیں۔ اور وہ کافی سستی بھی ہیں اگر امریکہ ان پر 25فیصد ڈیوٹی عائد کرتا ہے تو اس کا سب سے زیادہ نقصان امریکی عوام اور صارفین کو ہو گا کیونکہ وہ انتہائی مہنگی ہو جائیں گی۔ امریکہ نے ایک پلاننگ کے تحت روزمرہ استعمال کی اشیاء کی صنعتوں کو ختم کرکے ہائی ٹیک ٹیکنالوجی، مصنوعی ذہانت اور جدید ترین اسلحے کی صنعتوں کو فروغ دیا ہے۔ تاکہ وہ نہ صرف دنیا پر اپنی اجارہ داری قائم رکھ سکے بلکہ زیادہ سے زیادہ منافع بھی کما سکے۔ جبکہ روزمرہ استعمال کی صنعتوں کی بندش کے بعد چین نے اس میدان پر اپنی گرفت مضبوط کر لی اور سستی اشیاء کے ذریعے امریکہ اور یورپ کی مارکیٹوں پر قبضہ کر لیا۔ اپنی انتخابی مہم کے دوران ٹرمپ نے دنیا میں جاری جنگیں ختم کرنے اور کسی نئی جنگ میں اترنے کے بار بار اعلانات کئے۔ جبکہ صدر بنتے ہی اس نے طالبان سے مطالبہ کر دیا کہ وہ افغانستان میں چھوڑا ہوا امریکی اسلحہ واپس کر دیں۔ اس اعلان اور طالبان کی جانب سے انکار نے علاقے میں دوبارہ امریکی مداخلت کے امکانات پیدا کر دئیے ہیںجس کا معقول جواز یہ دیا جا رہا ہے کہ چونکہ چین نے طالبان کے ساتھ کافی تعلقات استوار کر لیے ہیں۔ اور وہ ایران کے ساتھ بھی پیار کی پینگیں بڑھا رہا ہے۔ جو اس کے ون بیلٹ ون روڈ کے منصوبے کا ایک حصہ ہے جس میں پاکستان بھی سی پیک کے حوالے سے ایک بڑا اہم پارٹنر ہے۔ لہٰذا امریکہ کی خواہش یہ ہے کہ طالبان اور پاکستان کے مابین تلخ تعلقات کا فائدہ اٹھا تے ہوئے وہ پہلے توطالبان مخالف اقدامات کے ذریعے پاکستان کی ہمدردیاں حاصل کرے تاکہ پاکستان کو دوبارہ امریکی کیمپ میں لایا جا سکے اور اگر اس میں کامیابی نہ ہو تو پھر پاکستان کی موجودہ حکومت کے خلاف انسانی حقوق کی پامالی اور عمران خان کو رہا کرنے کیلئے دبائو ڈالا جائے۔ اسی منصوبے کے تحت امریکی صدر کے نامزد خصوصی نمائندے رچرڈ گرینل نے چند دن پہلے تک عمران خان کی رہائی کے بارے میں نہ صرف ٹویٹ کیا بلکہ ایک بیان بھی دے دیا۔ جس سے PTIکی صفوں میں خوشی کہ لہر دوڑ گئی۔ ادھر حکومتی حلقوں میں اسکا جواب دینے کی تیاریاں ہونے لگیں ۔ لیکن اسکےساتھ ہی سارا منظر نامہ بدل گیا۔ جب چند دن پہلے امریکی سرمایہ کاروں کا ایک وفد جنٹری بیچ کی سربراہی میں پاکستان پہنچ گیا اور اس نے پاکستان کی تعریفوں کے پُل باندھ دئیے۔ انہوں نے پاکستان کو شاندار ملک ٹھہرایا جو قدرتی معدنیات سے مالا مال ہے۔ انہوں نے مختلف شعبوں میں امریکی سرمایہ کاروں کی طرف سے کھربوں ڈالر کی سرمایہ کاری کی نوید بھی سنائی بلکہ رچرڈ گرینل کے عمران خان کے بارے میں بیانات پر بھی یو ٹرن لے لیا۔ اور کہا کہ رچرڈ گرینل کو ڈیپ فیک ٹیکنالوجی کے ذریعے گمراہ کیا گیا تھا۔ اس لیے انہوں نے سوشل میڈیا پر رچرڈ گرینل کی عمران خان کے بارے میں ٹویٹس ڈیلیٹ کر دی ہیں۔ جس سے پی ٹی آئی کے کیمپ میں سوگ کی کیفیت پیدا ہو گئی ۔ تاہم میرے خیال میں نہ تو پی ٹی آئی کو مایوس ہونا چاہیے اور نہ ہی حکومتی حلقوں کو شادیانے بجانے چاہئیں۔ ملکوں کے تعلقات افراد پر نہیں قومی مفادات پر مبنی ہوتے ہیں۔ اس لیے اگر موجودہ حکومت امریکی خوشنودی حاصل نہ کر سکی۔ تو ٹرمپ صاحب کسی وقت بھی انکے حق میں بیانات دے سکتے ہیں۔ سب سے پہلے اہم بات یہ ہے کہ صدر ٹرمپ کا بار بار یہ اعلان کرنا کہ ہم امریکہ کو دوبارہ ایک عظیم سپر پاور بنائیں گے یہ ظاہر کر تا ہے کہ امریکہ سرِ دست عظیم نہیں رہا۔ اس کے ہاتھ سے دنیا کی سربراہی اس طرح پھسلتی جا رہی ہے جیسے بند مٹھی سے ریت۔ لہٰذا بقول سر برٹرینڈرسل دنیا میں مغرب اور مشرق کی اجارہ داری کا دور بدلتا رہتا ہے اور آنے والا دور یقیناً مشرق کا دور ہو گا۔ میرا آج کا شعر

اب کے گلشن میں عجب تبدیلیاں آنے لگیں

تتلیاں کاغذ کے پھولوں پر بھی منڈلانے لگیں

تازہ ترین