• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

مختار احمد

کسی گاؤں میں ایک کسان رہتا تھا۔ اس کے پاس تھوڑی سی زمین تھی جس پر وہ فصلیں اگاتا تھا۔ وہ دن بھر کھیتوں میں کام کرتا تھا اور اس کی بیوی گھر کے کاموں کے علاوہ کھیتوں میں بھی مختلف کاموں میں اس کا ہاتھ بٹاتی تھی۔ ان کے دو بچے تھے۔ ایک بیٹا شاہ نواز جس کی عمردس سالاور ایک بیٹی ماہ نور آٹھ برس کی تھی۔ ان کا گاؤں چھوٹا تھا اور وہاں کوئی سرکاری اسکول نہیں تھا، اس لیے دونوں بچے گاؤں کے ایک چھوٹے سے مدرسے میں پڑھنے جاتے تھے۔ 

کسان اور اس کی بیوی کی خواہش تھی کہ ان کے بچے بہت سی تعلیم حاصل کریں۔ وہ دونوں خود تو پڑھے لکھے نہیں تھے، مگر اس کے باوجود وہ تعلیم کی اہمیت سے واقف تھے۔ ایک دفعہ گندم کی فصل بہت اچھی ہوئی جس کو بیچ کر کسان کو اچھی خاصی رقم حاصل ہوئی۔ اس کی بیوی بہت خوش ہوئی۔ اس نے سال بھر کے گھر کے اخراجات کا حساب لگایا، پھر اگلی فصل کے بیجوں اور کھاد کے پیسوں کا اندازہ کر کے ایک معقول رقم الگ کرکے اسے احتیاط سے صندوق میں رکھ دیا۔ 

ان تمام اخراجات کو نکالنے کے بعد بھی اس کے پاس کافی رقم بچ گئ تووہ اسے لے کر اپنے شوہر کے پاس آئی اور بولی۔’’ہمارے سال بھر کے اخراجات کے پیسوں میں سے یہ روپے بچے ہیں۔ سردیاں آگئی ہیں، ایسا کرتے ہیں کا شہر جا کر ان پیسوں سے بچوں کے گرم کپڑے اور ان کی دوسری چیزیں لے آتے ہیں‘‘۔کسان کو اپنے بچوں سے بہت محبّت تھی۔ وہ خوش ہو گیا کہ اس کی محنت رنگ لائی، ویسے بھی کافی عرصہ ہو گیا تھا کہ بچوں کے نئے کپڑے نہیں بنے تھے۔ 

وہ بیوی کی بات سن کر شہر جانے پر راضی ہوگیا۔ اگلے روز دونوں نے بچوں کو گھر میں چھوڑا اور شہر روانہ ہو گئے۔ انہوں نے بچوں کو نہیں بتایا تھا کہ وہ ان کی چیزیں لینے شہر جا رہے ہیں، ان کا خیال تھا کہ بچے جب اچانک ان چیزوں کو دیکھیں گے تو زیادہ خوش ہوں گے۔ شہر زیادہ دور نہیں تھا۔ کسان کا خیال تھا کہ وہ دو تین گھنٹوں میں واپس آجائیں گے۔ انہیں گھر سے نکلے زیادہ دیر نہیں گزری تھی کہ آسمان کو کالے کالے بادلوں نے گھیر لیا، زور زور سے بجلی چمکنے لگی اور پھر تیز بارش شروع ہوگئی۔

بادلوں کی تیز گڑگڑاہٹ اور بجلی کے بار بار چمکنے سے دونوں بچے سہم گئے۔ شاہ نواز اپنی چھوٹی بہن ماہ نور کو تسلیاں دیتا۔ ان کی ماں دوپہر کا کھانا تیار کر کے گئی تھی، دوپہر ہوئی تو دونوں نے کھانا کھایا اور کمرے میں آ کر سونے کی کوشش کرنے لگے مگر پریشانی کے اس عالم میں ان کی نیند اڑ گئی تھی۔ وقت دھیرے دھیرے گزر رہا تھا اور شام ہوگئی۔ 

بارش رکنے کا نام نہیں لے رہی تھی۔ اندھیرا چھانے لگا ، شاہ نواز مٹی کا دیا جلا کر لے آیا۔ ماہ پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی۔ ’’اچھی بہن۔ بارش کی وجہ سے نالے ندی بھر گئے ہونگے۔ ہر طرف کیچڑ ہی کیچڑ ہوگی، اس لیے امی اور ابا کو آنے میں دیر ہورہی ہے‘‘۔ اس نےاپنی بہن تسلی دی چپ کرایا۔

کسان کے پڑوس میں ایک نوجوان عورت فاخرہ رہتی تھی۔ اتفاق کی بات کہ رات کا کھانے پکاتے ہوئے نمک ختم ہو گیا ہے۔ تیز بارش کی وجہ سے کوئی دکان پر بھی نہیں جا سکتا تھا۔ فاخرہ نے سوچا کہ نمک کسان کی بیوی سے لے لوں۔یہ سوچ کر وہ شال سر پر ڈال کر کسان کے گھر آئی۔ اس نے جب دروازے پر دستک دی تو شاہ نواز اور ماہ نور خوش ہوگئے کہ ان کے امی ابا آگئے ہیں۔دونوں بھاگ کر دروازے پر پہنچے۔

دروازہ کھولا تو انہوں نے فاخرہ کو دیکھا۔ ماہ نور تو اس کے گلے لگ کر رونے لگی اور شاہ نواز اسے بتانے لگا کہ ان کے امی ابا شہر گئے ہوئے ہیں۔ فاخرہ نے کسان کے گھر کو تالا لگایا اور دونوں بچوں کو لے کر اپنے گھر آگئی۔ اس نے جلدی جلدی کھانا پکایا۔

بچوں کے لیے گڑ کے چاول پکائے،پھر سب نے مل کر کھانا کھایا۔ رات زیادہ ہو گئی تھی، اس نے دونوں بچوں کے لیے صاف ستھرا بستر بچھایا اور ان کو سلا دیا۔ صبح تک بارش تھم چکی تھی۔ تھوڑی ہی دیر گزری تھی کا گلی میں بیل گاڑی کی چھکڑ چھکڑ سنائی دی۔ فاخرہ آواز سن دوڑ کر دروازے پر گئی۔ 

اس نے دیکھا کہ کسان اور اس کی بیوی گھبراے ہوئے بیل گاڑی سے اتر رہے ہیں۔ کسان کی بیوی کے چہرے پر ہوائیاں اڑ رہی تھیں، اسے یہ فکر تھی کہ ان کی غیر موجودگی میں بچوں پر کیا گزری ہوگی۔ 

مگر جب اس نے گھر کے دروازے پر تالا لگا دیکھا تو حیرانی سے اپنے شوہر کی طرف دیکھنے لگی۔ فاخرہ یہ سب دیکھ کر ان کے نزدیک گئی۔ انھیں تسلی دی اور پھر یہ بتایا کہ وہ رات کو ہی دونوں بچوں کو اپنے گھر لے آئی تھی۔ یہ سن کر کسان اور اس کی بیوی کی جان میں جان آئی۔ دونوں بچے ابھی تک مزے سے سو رہے تھے۔ 

کسان کی بیوی نے فاخرہ سے کہا- ’’بہن تم نے ہم پر بہت بڑا احسان کیا ہے کہ ہمارے بچوں کی خبر گیری رکھی۔ ہمیں کیا پتہ تھا کہ بارش کی وجہ سے ہم راستے ہی میں پھنس جائیں گے، یہ پتہ ہوتا تو میں بچوں کو تمہارے پاس ہی چھوڑ جاتی‘‘- فاخرہ نے کسان کی بیوی سے کہا۔ ’’اس میں احسان کی کوئی بات نہیں۔ پڑوسیوں کے بہت زیادہ حقوق ہوتے ہیں۔

اپنے خود کے رشتے دار تو دور دور رہتے ہیں، پڑوسیوں کا تو ہر دم کا ساتھ ہوتا ہے، اس لیے پڑوسیوں کو ایک دوسرے کا خیال رکھنا چاہیے ،ان کی باتوں کی آواز سے شاہ نواز اور ماہ نور کی آنکھیں بھی کھل گئی تھیں، وہ دونوں بھاگ کر آئے اور اپنی ماں سے لپٹ گئے۔ کسان کی بیوی نے چیزوں سے بھرا تھیلا ان کو تھما دیا جو وہ ان کے لیے شہر سے لائی تھی- دونوں بچوں کے چہرے خوشی سے جگمانے لگے تھے۔ کسان کی بیوی نے فاخرہ کو دعائیں دیں اور بچوں کو لے کر گھر آگئی۔