چند برس قبل جب موسمیاتی تبدیلیوں کی بات ہوتی تھی تو ہمارے ہاں لوگ ان خدشات کو اندیشہ ہائے دوردراز قرار دیتے ہوئے ہنسنا شروع کردیتے تھے مگر اب یہ بھیانک حقیقت ہمارا منہ چڑا رہی ہے۔ کسی اور معاملے میں پاکستان سرفہرست ہو نہ ہو موسمیاتی تبدیلیوں سے متاثر ہونیوالے ممالک میں پانچویں نمبر پر آچکا ہے۔ سردیاں تو متواتر سکڑتی ہی جارہی ہیں مگر اس بار موسم کے تیور مکمل طور پر بدل گئے ہیں۔ بارشیں روٹھ گئی ہیں، برف باری نہیں ہوئی اور بظاہر یوں لگتا ہے جیسے خشک سالی کا بحران ایک نئے امتحان کی شکل میں سامنے آنیوالا ہے ۔اسلام آباد جہاں ہر دوسرے دن بارش ہوا کرتی تھی ،لوگ چھتریاں لیکر گھروں سے باہر نکلا کرتے تھے کہ موسم کا کوئی اعتبار نہیں مگر اب سب بوند بوند کوترس رہے ہیں۔ زیرزمین پانی ختم ہونے کو ہے اور یوں لگتا ہے جیسےخدانخواستہ آنیوالے چند برس کے دوران کئی شہر پانی دستیاب نہ ہونے کی وجہ سے اُجڑ جائینگے۔ گاہے خیال آتا ہے، ساون کے رومانوی موضوع پر شعر کہے جاتے تھے، برسات کا استعارہ خوبصورت پیرائے میں استعمال کیا جاتا تھا، سیاہ بادلوں کو محبوب کی زُلفوں سے تشبیہ دی جاتی تھی، اب وہ گھٹائیں اور فضائیں نہ رہیں گی تو تخیل کی پرواز کا کیا ہوگا؟بہار کی رُت، جل تھل اور ابر کرم جیسی باتیں بھی قصہ پارینہ ہو جائیں گی؟
بارشوں کے موسم میں؍تم کو یاد کرنیکی ؍عادتیں پرانی ہیں ؍اب کی بار سوچا ہے؍ عادتیں بدل ڈالیں ؍پھر خیال آیا کہ؍ عادتیں بدلنے سے؍ بارشیں نہیں رُکتیں
تکلف برطرف، موسمیاتی تبدیلیاں ہماری اجتماعی عادات و اطوار کا نتیجہ ہیں۔ تباہی و بربادی کا پہیہ مکمل طور پر روکنا تو شاید ممکن نہ ہو لیکن عادتیں بدلنے سے اسکی رفتار ضرور کم کی جاسکتی ہے ۔کئی بار بھرپور مہم چلائے جانے کے باوجود پلاسٹک بیگ ختم نہیں کئے جاسکے، کیا یہ زہرقاتل سے کم ہیں؟ہونا تو چاہئے تھا کہ بڑے شہروںکے بعد دیہات اور قصبات میں بھی مرکزی پائپ لائن کے ذریعے پانی مہیا کیا جاتا تاکہ پانی کے ضیاع کو روکا جاسکتا لیکن لاہور اور اسلام آباد جیسے شہروں میں ابھی تک زمین میں بور کرکے پانی نکالنے پر پابندی عائد نہیں کی گئی جس سے زیر زمین پانی کی سطح نہایت تیزی سے کم ہورہی ہے۔ ترقی و خوشحالی کیلئے سڑکیں ناگزیر ہیں مگر درختوں کی بے دریغ کٹائی بھی ان موسمیاتی تبدیلوں کی ایک بڑی وجہ ہے۔ کیا کبھی یہ سوچنے کی زحمت کی گئی کہ بادلِ نخواستہ ایک درخت کاٹنا پڑتا ہے تو اس کے بدلے 100نئے درخت لگائے جائیں ؟ ملتان میں رہائشی منصوبوں کیلئے آم اور کھجور کے باغات ختم کردیئے گئے، زرعی زمینوں پر کاشتکاری کرنے کے بجائے ہاؤسنگ اسکیمیں بنانے کا رجحان کیا رنگ لائے گا؟مری اور اسلام آباد میں قدرتی پہاڑ کاٹ کر کنکریٹ کے پہاڑ کھڑے کر دیئے جائینگے تو پھر موسمیاتی تبدیلیوں کی صورت میں خمیازہ تو بھگتنا پڑے گا۔کسی اور ملک میں ایسی سنگین صورتحال درپیش ہوتی تو باقی سب کام چھوڑ کر ہنگامی بنیادوں پر اقدامات کئے جاتے مگر یہاں کوئی ’’ہو ہو‘‘ کر رہا ہے تو کوئی ’’تھو تھو‘‘ کر رہا ہے۔منتخب عوامی نمائندوں کو بس اس بات کی فکر ہے کہ اپنی تنخواہوں اور مراعات میں اضافہ کیسے کروانا ہے یا پھر اپنی جماعت کا سیاسی ایجنڈا کیسے آگے بڑھانا ہے۔ حکومت کی سنجیدگی کا یہ عالم ہے کہ قابل کاشت اراضی کو کمرشل مقاصدکیلئے استعمال کرنے پر پابندی لگانے کے بجائے رئیل اسٹیٹ سیکٹر کو بیل آؤٹ پیکیج دینے کی تیاریاں ہورہی ہیں تاکہ کنسٹرکشن کا عمل تیز ہونے کے نتیجے میں یہ ملک چند برس میں ہی جہنم بن جائے۔ گزشتہ ہفتے اسلام آباد میں عالمی موسمیاتی کانفرنس کا انعقاد کیا گیا ۔اس فورم پر دیگر مقررین کے علاوہ وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا علی امین گنڈا پور اور سپریم کورٹ کے جج جسٹس منصور علی شاہ نے بھی خطاب کیا۔ ان افراد کے انتخاب سے اندازہ لگالیں ،ہم موسمیاتی تبدیلوں کے مسئلے سے نمٹنے کیلئے کس قدر سنجیدہ ہیں ۔کوئی سیاسی ایجنڈا ہوتا تو جناب گنڈا پور کی صلاحیتوں سے استفادہ کیا جاسکتا تھا اسی طرح اگر آئین و قانون سے متعلق رہنمائی درکار ہوتی تو عالی مرتبت جج جسٹس منصور علی شاہ بہترین انتخاب ہوسکتے تھے مگر موسمیاتی تبدیلیوں کے حوالے سے لائحہ عمل تیار کرنا مقصود تھا تو ملکی و غیر ملکی ماہرین کو مدعو کیا جاتا مگر ہمیں ہر مسئلہ فن تقریر سے حل کرنیکی عادت ہے۔ ہمارا خیال ہے کہ کسی بڑے ہوٹل میں نشست کا اہتمام کرلیں، گول میز کانفرنس منعقد کرلیں یا پھر ایوان میں دھواں دار قسم کا خطاب ہوجائے تو موسمیاتی تبدیلیوں سمیت ہر پیچیدہ اور گھمبیر مسئلہ چٹکی بجاتے ہی حل کیا جاسکتا ہے۔ اگر زیادہ شور شرابہ ہو تو ایک نئی اتھارٹی قائم کردی جائے ،ایک نیا محکمہ یا نئی وزارت بنا دی جائے تاکہ چند لوگوں کو جھنڈے والی گاڑیاں اور پروٹوکول میسر آسکے، نئے دفاتر تعمیر ہوں، منظور نظر سرکاری افسروں کو اہم عہدوں پر تعینات کیا جاسکے ،یہ ہے کسی بھی بحران سے نمٹنے کی تدبیر۔
حضور! اس ملک اور قوم پر رحم کریں ۔یہ محض سنہرے خواب بننے اور کاغذی منصوبے تشکیل دینے کا وقت نہیں۔آگ کو کاغذ سے ڈھانپ کر خود کو محفوظ تصور نہیں کیا جاسکتا۔ تجاوزات کیخلاف آپریشن چلتے رہیں گے، رئیل اسٹیٹ سیکٹر میں سرمایہ کاری ہوتی رہے گی،سیاسی اختلافات کیلئے بہت وقت پڑا ہے ۔فی الحال ہمیں اپنی بقا کی جنگ لڑنی ہے۔ موسمیاتی تبدیلیوں کی صورت میں ایک نہایت بے رحم دشمن کا سامنا ہے۔ وقت مُٹھی میں بند ریت کی مانند پھسل رہا ہے۔ خاکم بدہن ،مستقبل میں پانی کی کمی سے کئی بڑے شہر آفت زدہ قرار پانے کے بعد یوں ویران ہو جائینگے جیسے ماضی میں طاعون کی وباپھیلنے کے بعد علاقے اُجڑ جایا کرتے تھے۔موسمیاتی تبدیلوں کا اونٹ ہمارے خیمے میں داخل ہوچکا ہے۔اس سے بچنا ہے تو ہمیں اپنی عادتیں بدلنا ہونگے، رہن سہن تبدیل کرنا ہوگا ،ترجیحات کی فہرست ازسر نو ترتیب دینا ہوگی ورنہ ہماری داستاں تک بھی نہ ہوگی داستانوں میں۔