• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

وکلاء کا احتجاج، اشارہ کرتے تو حاوی ہوتے، پولیس بھی ہماری اپنی، علی کرد

کراچی (ٹی وی رپورٹ) جیوکےپروگرام ”کیپٹل ٹاک“ میں میزبان حامد میر سے گفتگو کرتے ہوئے سابق صدر سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن علی احمد کرد نے کہا ہے کہ وکلاء کے احتجاج کے دوران ہم اگر اشارہ کرتے تو حاوی ہو سکتے تھے لیکن پولیس بھی ہماری اپنی ہے۔ اس احتجاج کے بعد جوڈیشل کمیشن کے اراکین کی تعداد تیرہ سے کم ہو کر نو ہو گئی ہے اور ہم دوبارہ آئیں گے۔ مشیر وزارت قانون و انصاف بیرسٹر عقیل ملک نے کہا کہ احتجاج سب کا حق ہے مگر غیر قانونی طریقے سے احتجاج کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔ انہوں نے کہا کہ احتجاج کی وجہ سے جوڈیشل کمیشن کے بائیکاٹ کا فیصلہ متاثر نہیں ہوا۔ علی احمد کرد کے پارلیمنٹ کو نہ ماننے سے فرق نہیں پڑتا آئین کے مطابق پارلیمنٹ ایگزیکٹو اور عدلیہ کے دائرہ کار واضح ہیں۔ تحریک انصاف کے پارلیمانی لیڈر سینیٹ بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ تینوں ججز کی منتقلی آرٹیکل 200 کے تحت ہوئی لیکن ایک جج کی سنیارٹی بڑھنے سے مسئلہ پیدا ہواجبکہ میزبان حامد میر نے اپنے تجزیہ میں کہا کہ پاکستان میں اعلیٰ ججز کی تقرری ایک سیاسی تنازع بنتی جا رہی ہے۔ وکلاء نے جوڈیشل کمیشن کے اجلاس کے خلاف احتجاج کیا لیکن اجلاس ملتوی نہیں ہوا اور نئی تقرریوں کا اعلان بھی ہو گیا۔ اہم سوال یہ ہے کہ آئی ایم ایف کی جوڈیشل کمیشن کے ممبران سے ملاقات پاکستان کے داخلی معاملات میں مداخلت ہے یا نہیں؟۔ بیرسٹر عقیل نے سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے الیکشن میں مہمانوں سے پوچھا کہ انہوں نے کس کو ووٹ دیا جس پر علی احمد کرد نے جواب ٹالتے ہوئے کہا کہ خدا جانتا ہے۔ لاہور ہائیکورٹ کے جج کے معاملے پر علی ظفر نے کہا کہ ابھی تک جوڈیشل سائیڈ پر فیصلہ نہیں ہواہے۔علی احمد کرد نے کہا کہ میں پسند نہیں کرتا کہ آئی ایم ایف ہو یا ورلڈ بینک ہو وہ جوڈیشل کمیشن سے ملاقات کرے لیکن سوال یہ ہے کہ آئی ایم ایف کو یہ راستہ کس نے دیا ہے ۔بیرسٹر عقیل ملک نے کہا کہ آئی ایم ایف کا وزٹ گورننس اور کرپشن سے متعلق ہے جو انہیں پچھلے سال کرنا تھا اور حکومت نے اس پر کوئی خاص معاہدہ نہیں کیا۔
اہم خبریں سے مزید