انصار عباسی
اسلام آباد :…غیر ملکی شپنگ کمپنیوں پر انحصار کی وجہ سے پاکستان فریٹ چارجز کی مد میں سالانہ 6 سے 8 ارب ڈالرز خرچ کرتا ہے۔ ملک کی واحد شپنگ کمپنی پاکستان نیشنل شپنگ کارپوریشن صرف 12 پرانے جہاز چلاتی ہے جبکہ کمپنی کے پاس ایک بھی کارگو کنٹینر جہاز نہیں۔ غیر ملکی بحری جہازوں پر انحصار کی وجہ سے پاکستان کا قیمتی زرمبادلہ خرچ ہو جاتا ہے، جس سے ملک کے معاشی چیلنجز بڑھ جاتے ہیں۔ وزارت دفاع کے ذرائع کے مطابق، میری ٹائم سیکٹر میں اصلاحات کیلئے قائم ٹاسک فورس کی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ اس رجحان کو تبدیل کرنے کیلئے پی این ایس سی نے کراچی شپ یارڈ میں مقامی طور پر پاکستان کے پہلے 1120؍ ٹوئنٹی ایکویولنٹ یونٹ (TEU) صلاحیت کے حامل کنٹینر جہاز کی تعمیر کیلئے ایک زبردست اقدام شروع کیا تھا اور اس منصوبے پر 24؍ ارب روپے خرچ ہونا تھے۔ اس طرح کی ساخت کے غیر ملکی جہاز کی لاگت 32؍ ارب روپے کے مقابلے میں مقامی پروجیکٹ بیحد سستا تھا، تاہم، اس پروجیکٹ کو ایک سال قبل اچانک روک دیا گیا۔ اس تاخیر کی وجہ سے نہ صرف پاکستان کا مقامی سطح پر استعداد بڑھانے اور روزگار کے مواقع پیدا کرنے کا موقع ضایع ہوا بلکہ اس کا نتیجہ آمدنی میں نمایاں حد تک نقصان اور پروجیکٹ کی لاگت میں اضافے کی صورت میں سامنے آیا۔ لیکن، اب اس پروجیکٹ ایک مرتبہ پھر بحال کر دیا گیا ہے جس سے ملک کے میری ٹائم سیکٹر میں بہتری کی امید پیدا ہوئی ہے۔ ذرائع کے مطابق، پی این ایس سی کے اس اقدام پر پہلے عمل ہو جاتا تو یہ مقامی جہاز سازی کی جانب ایک تاریخی تبدیلی کا پیش خیمہ ثابت ہوتا، غیر ملکی شپنگ کمپنیوں پر پاکستان کا انحصار کم ہوتا جبکہ فریٹ چارجز کی مد میں بھی اربوں کی بچت ہوتی۔ پروجیکٹ کیلئے ادائیگی کا ایک بڑا حصہ ملکی کرنسی (روپیہ) میں ہونا تھی، جس سے زر مبادلہ کے ذخائر پر بھی بوجھ میں کمی آتی۔ لیکن پروجیکٹ پر عمل میں تاخیر سے نہ صرف آمدنی میں کمی واقع ہوئی ہے بلکہ لاگت میں اضافے کا خطرہ بھی بڑھ گیا ہے۔ اس سے ملک کے مالی شعبے پر دباؤ بڑھے گا۔ ذرائع کے مطابق، کسی دور میں عالمی سطح پر صف اول کی صنعت سمجھی جانے والی پاکستان کی شپ بریکنگ انڈسٹری بھی ڈرامائی طور پر زوال پذیر ہے۔ گڈانی شپ بریکنگ یارڈ، جو 1980ء کی دہائی میں دنیا کا تیسرا سب سے بڑا یارڈ تھا، اب صرف 0.3؍ ارب روپے سالانہ کماتا ہے۔ فرسودہ انفراسٹرکچر، ناقص رابطہ کاری اور ہانگ کانگ کنونشن جیسے عالمی ضوابط کی تعمیل میں کمی جیسے عوامل نے گڈانی کو غیر مسابقتی بنا دیا ہے۔ اس کے برعکس، بھارت اور بنگلہ دیش بالترتیب 90؍ اور 6؍ ایچ کے سی کمپلائنٹ یارڈز کی حیثیت سے ابھر کر سامنے آئے ہیں۔ خبردار کیا گیا ہے کہ جولائی 2025ء میں ایچ کے سی نافذ العمل ہونے سے قبل اگر پاکستان نے اپنی جہاز توڑنے کی انڈسٹری کو جدید نہ بنایا تو اس کے پاس جتنا کم کاروبار باقی رہ گیا ہے؛ اس سے بھی محروم ہو جائے گا۔ بڑے جہاز رانی کے راستوں کے سنگم پر پاکستان کا اسٹریٹجک مقام اس کے میری ٹائم سیکٹر کو تبدیل کرنے کا ایک اہم موقع فراہم کرتا ہے۔ پی این ایس سی کے پائلٹ اقدام کی حمایت کرتے ہوئے اور غیر ملکی جہازوں پر انحصار کم کرنے کیلئے مقامی جہاز سازی کی سہولیات میں اضافہ کرکے قومی کنٹینر فلیٹس تیار کرنا ایجنڈے میں شامل ہے۔ غیر ملکی سرمایہ کاری، ریگولیٹری اصلاحات، اور بین الاقوامی معیارات کے مطابق انفراسٹرکچر اپ گریڈ کے ذریعے گڈانی کو جدید بنانا بھی متعلقہ حکام کی توجہ میں آ چکا ہے۔ جو دیگر اقدامات کیے جا رہے ہیں؛ ان میں معروف عالمی جہاز سازوں کے ساتھ مشترکہ منصوبوں کے ذریعے پورٹ قاسم اور گوادر میں بین الاقوامی معیار کے شپ یارڈز کی تعمیر شامل ہے اور مقامی جہاز رانی کی سرگرمیوں میں اضافے اور اندرون ملک نقل و حمل کے اخراجات میں کمی لانے کیلئے ایک پورٹ سے دوسرے پورٹ تک کارگو کی نقل و حرکت کو کوسٹل ٹریڈ کے طور پر درجہ بند کرنا شامل ہے۔ کہا جاتا ہے کہ میری ٹائم سیکٹر پاکستان کی معیشت کیلئے بے پناہ مواقع کا حامل شعبہ ہے۔ جہاز سازی ایک ایسی صنعت ہے جو مزدوروں کیلئے ہزاروں ملازمتیں پیدا کر سکتی ہے، جبکہ ایک قومی بیڑا فریٹ چارجز کی مد میں اربوں کی بچت کر سکتا ہے، زرمبادلہ کے اخراج کم ہو سکتے ہیں۔ ذرائع کے مطابق، گڈانی کی اصلاح اور نئے شپ یارڈز کا قیام پاکستان کو ایک علاقائی سمندری مرکز کے طور پر منظر نامے پر سامنے لا سکتا ہے جس سے غیر ملکی سرمایہ کاری کو راغب کیا جا سکے گا اور خاطر خواہ آمدنی حاصل ہوگی۔