• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے صدارتی انتخابی مہم کے دوران جیت کی صورت میں اقتدار ملنے پر چوبیس گھنٹے کے اندر یوکرین کی جنگ بند کروانے کے بلند بانگ دعوئے کیے تھے ۔چوبیس گھنٹے میں تو ایسا ممکن نہ ہوا البتہ صدارتی عہدہ سنبھالنے کے ستائیس دن بعد بالآخر پیش قدمی کا باقاعدہ آغاز روسی صدر پوٹن سے ڈیڑھ گھنٹہ طویل فون کال کے بعد کر دیا ہے۔ صدر ٹرمپ نے اس فون کال کے بعد اعلان کیا ہے کہ وہ جنگ بندی اور امن معاہدہ کیلئے صدر پوٹن سے متفق ہو گئے ہیں اورجلد با ضابطہ امن مذاکرات شروع ہو جائیں گے جسکے لیے صدر ٹرمپ نے چار رکنی مذاکراتی کمیٹی تشکیل دی ہے جس میں وزیر خارجہ مارکو روبیو، ڈائریکٹر سی آئی اے جان ریٹکلیف، قومی سلامتی کے مشیر مائیکل والتز اور نمائندہ خصوصی سٹیو ویٹکوف شامل ہیں۔ گو صدر ٹرمپ سے یوکرین جنگ بندی کے سلسلے میں ایسی کاوش متوقع تھی لیکن یہ توقع ہر گز نہیں کی جا سکتی تھی کہ وہ اپنے یورپی اور خاص کر نیٹو اتحاد میں شامل ممالک کو مشاورتی عمل سے باہر رکھیں گے۔ سب سے زیادہ ششدر کر دینے والی بات صدر ٹرمپ کی فون پر صدر پوٹن کی گئی بات چیت ہی نہیں بلکہ اسکے فوراً بعد امریکی وزیر دفاع کی جانب سے یوکرین سے متعلق دفاعی پالیسی کا بیان تھا جس میں نیٹو اور یورپین اتحادیوں کے یوکرین سے متعلق موقف کے برعکس دو ٹوک الفاظ میں یوکرین کی نیٹو میں شمولیت کو خارج ازامکان قرار دیتے ہوئے اس بات کا عندیہ بھی دے دیا کہ یو کرین کو امن کیلئے اپنے کچھ علاقوں سے بھی ہاتھ دھونا پڑسکتےہیں۔امریکہ کی نئی انتظامیہ کا یہ موقف صدر بائیڈن کی انتظامیہ کے موقف کی نفی ہی نہیں بلکہ صدر پوٹن کے موقف کی تائید بھی ہے جسکی بنیاد پر روس یوکرین پر حملہ آور ہوا تھا۔ کیونکہ روس منسک معاہدےپر عمل درآمد کے ساتھ ساتھ نیٹو سے یہ ضمانت طلب کر رہا تھا کہ یوکرین کو نیٹو میں شامل نہیں کیا جائیگا۔ ٹرمپ کےاس نئے موقف نے یورپ اور خاص کر اُن قوتوں کو حیرت میں ڈال دیا ہے جو روس یوکرین جنگ پر جارحانہ انداز اپنائے ہوئے ہیں۔ صدر ٹرمپ اور پوٹن کی ٹیلیفون کال اور امریکی وزیردفاع کے بیان کے ردعمل میں بیشتر یورپی ممالک نے تشویش کا اظہار کرتے ہوئے اس سے برملا اختلاف کیا ہے اور یوکرین کی بقا کو یورپ کی بقا سے منسلک دیکھتے ہیں۔ ان کی نظر میں صدر ٹرمپ کے امن فارمولے کے تحت یوکرین کے ساتھ یورپی بقا کو بھی ناقابل تلافی نقصان کا خدشہ لاحق ہے۔ اس میں شک نہیں کہ یوکرین ٹرمپ امن فارمولا پر امریکہ کے یورپی اتحادی اپنے اختلاف اور احتجاج میں حق بجانب ہیں اور اُنکے تحفظات کا اظہار حقیقت پر مبنی ہے۔ کیونکہ جو بات وجہ تنازع بنی اگر اُس پر پسپائی اختیار کرتے روسی مطالبے کے عین مطابق شرائط پر عمل ہی کرنا ہے تو پھر تین سال سے جاری جنگ اور اس سے ہونے والی ساری قربانیاں رائیگاں جائیں گی۔ تاہم ان تمام دلائل کی موجودگی کے باوجود یورپ کی بے بسی کا موجد یورپ کا امریکی دفاع پر انحصار ہے۔ یورپ کی مجبوری یہ ہے کہ وہ اپنے دفاع کیلئے امریکہ اور نیٹو کا اسقدر محتاج ہے کہ امریکی منشا کے آگے سر تسلیم خم کرنے کے علاوہ اور کوئی چارہ نہیں۔

امریکہ کی اس سوچ پر بظاہر یہی قیاس ہے کہ صدر ٹرمپ کے نقطہ نظر میں مستقبل قریب اور بعید میں امریکہ کیلئے سب سے بڑا چیلنج چین ہے اور وہ اپنی تمام توجہ اور توانائی چین کو روکنے پر مرکوز رکھنا چاہتے ہیں۔ لہٰذاصدر ٹرمپ سمجھتے ہیں کہ یوکرین جنگ نے روس کو مغربی ممالک کی عداوت کے پیش نظر چین کا مطیع بننے پر مجبور کر دیا ہے جس سے بین الاقوامی سطح پر چین کی اُبھرتی ہوئی اقتصادی قوت کو تقویت مل رہی ہے۔ لہٰذا صدر ٹرمپ کے نزدیک یوکرین جنگ کا خاتمہ چین کی آسانیوں پر قدغن کیلئے ضروری ہے جو بین الاقوامی سطح پر امریکی بالادستی کی برقراری کے ہدف کا ایک اہم نکتہ ہے جس کی خاطر امریکہ یورپی اعتراضات سے صرف نظر کر رہا ہے۔ صدر ٹرمپ کا خیال ہے کہ یوکرین کی جنگ بندی روس کی چین کی محتاجی سے نجات کا موجب بنے گی جسکا فائدہ یورپ اور امریکہ کو ہو گا۔ اسکے ساتھ ہی امریکہ کی شاید یہ بھی حکمت عملی ہے کہ اس سلسلہ میں یورپ کے دفاع سے جُڑے خدشات اور عدم تحفظ سے فائدہ اُٹھا کر یورپ والوں کو اپنے دفاعی اخراجات میں اضافے پر مجبور کیا جا سکتا ہے تاکہ یورپ اپنے دفاع کیلئے اخراجات کا بڑا حصہ خود اُٹھائے۔ موجودہ امریکی حکومت کا مطالبہ ہے کہ نیٹو ممبران ممالک اپنے بجٹ کا کم سے کم پانچ فی صد دفاع کیلئے مختص کریں جو اسوقت ڈیڑھ سے دو فی صد ہے۔ ایسا اضافہ امریکی دفاعی صنعت کیلئے بھی فائدہ مند ہو گا۔ کیونکہ یورپ کو دفاع کیلئے درکار ساز و سامان کی بڑی مقدار امریکہ ہی مہیا کرے گا۔ لہٰذا ٹرمپ ایک تیر سے دو شکار کی پالیسی پر عمل پیرا ہیں ۔ نئی امریکی انتظامیہ کا بظاہر روایتی انداز سیاست کے برعکس عمل اور غیرسفارتی رویہ کے پیچھے اپنے اہداف کو حاصل کرنا بھی ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ ٹرمپ کہاں تک اپنے طے شدہ اہداف کو سابقہ امریکی خارجہ پالیسی کا رخ بدل کر حاصل کر پاتے ہیں۔ کیونکہ اس سےٹرمپ نے امریکہ کے اپنے اتحادیوں کے اعتماد کو داؤ پر لگا دیا ہے گو دنیا میں یہی تاثر ہے کہ امریکہ کو اپنی مرضی کرنے سے کوئی نہیں روک سکتا لیکن یورپ کے ساتھ امریکی مفادات کے تصادم کا اُبھرتا تاثر امریکی خارجہ پالیسی کی بنیادوں کو ہلا دے گا۔ کیونکہ امریکہ کی طاقت میں یورپ کا اتحادی ہونا بھی ایک حقیقت ہے۔ لہٰذا یورپ کو نظرانداز کرنا کسی صورت بھی امریکہ کیلئے سود مند نہیں ہو سکتا۔

تازہ ترین