• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

مریم نواز نے 26فروری 2024ء کو بطورِ وزیر اعلیٰ پنجاب حلف لیایعنی ان کی حکمرانی کا ایک سالہ دور مکمل ہونے کو ہے اور پنجاب حکومت کی کارکردگی سے متعلق یہ میرا پہلا کالم ہے۔ مریم نواز شریف سے پہلے دو خواتین اس دھرتی پر راج کر چکی ہیں۔ دریائے جہلم کے کنارے فاتح عالم سکندر یونانی کو ناکوں چنے چبوانے والے راجہ پورس کی موت کے بعد ان کی بیٹی منگلا رانی نے تاج و تخت سنبھالا۔ منگلا ڈیم کے قرب و جوار کا علاقہ اسی خاتون حکمران منگلا رانی سے معنون ہے اور پھرمہاراجہ رنجیت سنگھ کی بیوی مہا رانی جند کور کا دور تو گویاکل کی بات ہے۔ 1843ء میں بظاہر تو کم سن دلیپ سنگھ کو سنگھاسن پر بٹھایا گیا مگر عملاً ریاست کی باگ ڈور مہارانی جند کور کے ہاتھوں میں رہی۔ مہارانی جند کور نے محلاتی سازشوں ہی نہیں انگریزوں کی ریشہ دوانیوں کا بھی بھرپور مقابلہ کیا مگر جب باغباں برق و شررسے ملے ہوئے ہوں تو گلستاں کو تباہی و بربادی سے بچانا دشوار ہو جاتا ہے۔

ہمارے ہاں سیاست میں بہت سے کارڈ استعمال ہوتے ہیں، مثال کے طور پر مذہب کارڈ، عورت کارڈ، علاقائیت اور صوبائیت کا کارڈ مگر مریم نواز شریف نے صحت کارڈ، ہمت کارڈ، کسان کارڈ، مینارٹی کارڈ، لائیو اسٹاک کارڈ اور کاروبار کارڈ سمیت اتنے کارڈ جاری کر دیئے ہیں کہ ان کا شمار دشوار ہو گیا ہے۔ سب سے احسن اقدام یہ ہے کہ پنجاب حکومت کے اسکلڈ ڈویلپمنٹ فنڈ کے ذریعے خواجہ سرائوں کو شیف اور ہوٹل منیجمنٹ کے کورس کروائے جا رہے ہیں۔ نہ صرف مفت ٹریننگ دی جا رہی ہے بلکہ 8ہزار روپے ماہانہ اعزازیہ بھی دیا جا رہا ہے تاکہ وہ یہ ہنر سیکھ کر معاشرے میں باعزے طریقے سے روزگار کما سکیں۔ 25خواجہ سرائوں پر مشتمل پہلی کلاس جاری ہے جبکہ اگلے سیشن کیلئے ابھی سے رجسٹریشن ہو چکی ہے۔ اس کے علاوہ گھروں کی تعمیر اور کاروبار شروع کرنے کیلئے آسان شرائط پر قرضہ فراہم کرنے کی اسکیم بہت اچھی ہے بشرطیکہ یہ منصوبے روائتی سرخ فیتے کا شکار نہ ہوں، درخواستیں دینے کا طریقہ کار آسان ہو اور سفارش کے بجائے میرٹ پر لوگوں کو منتخب کیا جائے۔ وفاقی حکومت بینظیر انکم اسپورٹ کے نام پر سالانہ 455ارب روپے ضائع کر رہی ہے، اگر یہ رقم بھی لوگوں کو روزگار مہیا کرنے پر خرچ کی جائے تو معاشرے میں واقعی انقلاب لایا جا سکتا ہے۔ اگر یہ 455ارب روپے بلا سود قرض کی صورت میں فراہم کیے جائیں اور دس لاکھ روپے ایک درخواست گزار کر ملیں تو ایک سال میں ساڑھے چار لاکھ افراد کاروبار شروع کر سکتے ہیں اور ہر فرد کے ہاں دو لوگوں کو ملازمت ملے تو مزید 9لاکھ بے روزگاروں کو نوکریاں مل سکتی ہیں لیکن ہمارے حکمران بضد ہیں کہ جیسے حکومتیں کشکول لیکر امداد لیتی پھرتی ہیں ویسے ہی عوام کو بھی بھکاری بنا کر رکھنا ہے۔ بات کہاں سے کہاں نکل گئی۔ پنجاب میں وزیر اعلیٰ مریم نواز نے بہت سے سخت اور غیر مقبول فیصلے کیے ہیں جن سے یقیناً ان کی مقبولیت بھی کم ہو گی اور ووٹ بینک بھی متاثر ہو گا۔ مثال کے طور پر تجاوزات کے خلاف آپریشن بہت ضروری تھا۔ ہر حکومت اس خوف سے پیچھے ہٹ جاتی رہی کہ لوگ ناراض ہوں گے مگر مریم نواز شریف نے نتائج کی پروا کیے بغیر یہ مہم جاری رکھی ہوئی ہے۔ ہمارے ہاں ہر خرابی اور برائی کو غربت کا گڑھا کھود کر دفن کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ مثلاً موٹر سائیکل سواروں کو ہیلمٹ پہننے کا پابند کرنے کی کوشش کی جائے تو کہا جاتا ہے عام آدمی پیسے کہاں سے لائے۔ مگر کوئی یہ نہیں سوچتا کہ عام آدمی موٹر سائیکل خرید سکتا ہے تو ہیلمٹ کیوں نہیں لے سکتا۔ تجاوزات کے خلاف آپریشن پر بھی یہ دہائی دی گئی کہ بیچارے چھابڑی فروش کدھر جائیں؟ سبحان اللہ، کل اگر قانون نافذ کرنے والے ادارے چوروں اور ڈاکوئوں کے خلاف کارروائی کریں تو تب بھی یہی استدلال اختیار کیا جائے گا کہ پولیس بہت ظالم ہے بیچارے چور اور ڈاکو پکڑ لیے اب ان کے بچے کہاں سے کھائیں گے۔ خوش آئند بات یہ ہے کہ پنجاب حکومت پھل اور دیگر اشیاء بیچنے والوں کو نہ صرف خوبصورت کارٹ فراہم کر رہی ہے بلکہ مخصوص جگہوں پر باقاعدہ مارکیٹ بنا کر دے رہی ہے۔ ہاں البتہ تجاوزات کے حوالے سے مہم کا المیہ بھی یہی ہے کہ پانی نشیب کی طرف جاتا دکھائی دیتا ہے۔ جس طرح ماضی میں بااثر شخصیات کے گھروں کو ریگولرائز کر دیا جاتا تھا اور عام آدمی کا کچا گھر گرا دیا جاتا تھا، اب بھی اسی طرح کی شکایات سامنے آ رہی ہیں۔ چھوٹے بازاروں میں تو صفایا کر دیا گیا ہے مگر اکبر ی منڈی، شاہ عالم مارکیٹ، ہال روڈ جیسے بڑے بازاروں میں قبضہ مافیا کا تسلط ختم نہیں ہوا۔ ایوان عدل کے باہر آدھی سڑک کو پارکنگ کیلئے استعمال کیا جاتا ہے، مگر وہاں قانون کا بس نہیں چلتا۔اب ایک اور مہم شروع کر دی گئی ہے۔ وزیر اعلیٰ پنجاب کی ہدایت پر عظمیٰ بخاری صاحب چادر لیکر تھیٹرز میں چھاپے مار رہی ہیں، فنکاروں کو ہراساں کیا جا رہا ہے، یہ وہ طبقہ ہے جو اپنے گھر کا چولہا جلانے کیلئے بادل نخواستہ اس دلدل میں اُترتا ہے۔ حکومت کو ان لاچار وبے بس فنکاروں کے ہاں غربت کا ننگا ناچ دکھائی نہیں دیتا بس فحاشی نظر آتی ہے اور طرفہ تماشا یہ کہ لاہور کے پوش علاقوں میں بڑی بڑی کوٹھیوں میں عیش و طرب کی محفلوں میں لڑکیوں کا ناچ گانا رقص کہلاتا ہے مگر کسی تھیٹر میں عام تماش بینوں کے سامنے پرفارم کرنا مجرا بن جاتا ہے۔ کسی پنج تارہ ہوٹل یا بڑےکلب میں بیٹھ کر شراب پینا جرم نہیں مگر کسی عام آدمی سے ایک آدھ بوتل برآمد ہو جائے تو غل مچ جاتا ہے۔

مریم نواز صاحبہ! نمائشی اور سطحی نوعیت کے اقدامات سب کرتے رہے ہیں ان سے کچھ حاصل نہیں ہوتا۔ لوگوں کے بنیادی مسائل حل کرنے کی کوشش کریں۔ اور ہاں سب سے اہم بات۔ اگر آپ کا خیال ہے کہ ترقیاتی کاموں اور گڈ گورننس کے ذریعے لوگوں کے دلوں میں گھر کیا جا سکتا ہے تو شاید آپ کی سوچ کی سمت درست نہیں۔ اس قوم کو بیانئے کی لَت لگ چکی ہے۔ صر ف تبدیلی لانا کافی نہیں، باور کروانا بھی ضروری ہے۔

تازہ ترین