• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

کیا عدالتوں کو آزاد ہونا چاہیے یا نہیں؟ جسٹس جمال مندوخیل

سپریم کورٹ جج جسٹس جمال مندوخیل—فائل فوٹو
سپریم کورٹ جج جسٹس جمال مندوخیل—فائل فوٹو

ملٹری کورٹ میں سویلینز کے ٹرائلز کے فیصلے کے خلاف انٹرا کورٹ اپیلوں پر سماعت جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں 7 رکنی آئینی بینچ کر رہا ہے۔

دورانِ سماعت بانئ پی ٹی آئی کے وکیل عزیز بھنڈاری نے کہا کہ دیکھنا یہ ہے کہ آئین کس چیز کی اجازت دیتا ہے، عام ترامیم بنیادی حقوق متاثر نہیں کرسکتی، آئین بننے سے پہلے کے جاری قوانین کا بھی عدالت جائزہ لے سکتی ہے۔

جسٹس جمال مندوخیل نے وکیل سے سوال کیا کہ آرمی ایکٹ سیکشن ڈی کو نکالنے کے باوجود بھی کیا ملٹری جسٹس سسٹم چلتا رہے گا؟

وکیل عزیز بھنڈاری نے کہا کہ ٹرین چلے گی، سوال ہے کہ کس کو بٹھایا جاسکتا ہے کس کو نہیں، جسٹس منیب فیصلے سے بھی کورٹ مارشل جاری رہنے کا تاثر ہے، اگرچہ مارشل لاء میں بھی پارلیمان کے ذریعے بہتری کی آپشنز موجود ہیں، فوجی عدالتیں آئین کا آرٹیکل 175 سے باہر ہیں، سویلینز کے ٹرائل صرف آئین کا آرٹیکل 175 کے تحت ہی ہو سکتے ہیں، فوج آئین کا آرٹیکل 245 کے دائرہ سے باہر نہیں جا سکتی۔

جسٹس جمال مندوخیل نے وکیل سے سوال کیا کہ کیا (3) 8 کے مقصد کے لیے بنائی گئی عدالتیں دوسروں کا ٹرائل کر سکتی ہیں؟ آئین کے تحت آرمڈ فورسز ایگزیکٹیو کے ماتحت ہیں، کیا ایگزیکٹیو کے ماتحت فورسز عدالتی اختیار کا استعمال کرسکتی ہیں یا نہیں؟ کیا عدالتوں کو آزاد ہونا چاہیے یا نہیں؟

وکیل عزیز بھنڈاری نے کہا کہ وقفہ کے بعد عدالتی سوالات کے جواب دوں گا، ٹو ون ڈی آئین کے آرٹیکل 8 کی ذیلی شق 3 اے میں آتا ہے تو ایف بی علی کیس ختم کرنا پڑے گا۔

جسٹس جمال مندوخیل نے وکیل سے سوال کیا کہ 17 ممبر فل کورٹ نے بھی یہی کہا تھا کہ ایف بی علی میں ٹھیک کہا گیا ہے، آرٹیکل 8 کی ذیلی شق 3 اے ممبر آف آرمڈ فورسز پر لاگو ہوتی ہے؟

وکیل عزیز بھنڈاری نے کہا کہ ایف بی علی کیس نے کہہ دیا کہ یہ شق لاگو نہیں ہوتی، جب تک اس فائنڈنگ کو ختم نہیں کرتے اس کی اجازت کیسے ہو گئی، آرٹیکل 8 کی ذیلی شق 3 اے کی ساری بحث غیر ضروری ہے۔

جسٹس امین الدین خان نے کہا کہ انہوں نے کہا تو ہے بنیادی حقوق دستیاب ہیں۔

وکیل عزیز بھنڈاری نے کہا کہ ہمیں یہ نہیں پتا کہ کس اصول کے تحت پک اینڈ چوز کیا گیا۔

 جسٹس امین الدین خان نے کہا کہ پک اینڈ چوز ایف آئی آر کی رجسٹریشن کے بعد ہوتی ہے۔

جسٹس مسرت ہلالی نے وکیل سے سوال کیا کہ 5 ہزار سے زیادہ لوگ گرفتار ہوئے، 103 کو فوجی تحویل میں بھیجا گیا، کیا اے ٹی سی بھیجے گئے ملزمان پر بھی فوجی تنصیبات پر حملے کا الزام تھا، کیا ان پر بھی وہی چارجز آئے جو فوجی تحویل والوں پر آئے؟

وکیل عزیز بھنڈاری نے کہا کہ ملٹری ٹرائل والوں پر کون سے چارجز آئے کسی کو نہیں پتہ، نہ ہی وہ ریکارڈ پر ہے، 1973ء کے آئین میں دیکھیں تو 8 تھری اے نہیں آتا۔

جس پر جسٹس جمال خان مندوخیل نے سوال کیا کہ چاہے آپ جتنے مرضی خطرناک کیوں نہ ہوں؟ 

وکیل عزیز بھنڈاری نے کہا کہ میں وکالت نامے پر دستخط کروانے گیا تھا اسی کیس میں مجھے بھی پکڑ کر لیا گیا، مجھے بھی 2 گھنٹے اندر رکھا گیا، ایف بی علی کیس میں جو وجوہات دی گئیں وہ ٹھیک ہیں۔

جسٹس مسرت ہلالی نے وکیل سے کہا کہ ایف بی علی کیس کسی کو سمجھ نہیں آرہا، اتنے دن سے اسی پر بحث ہو رہی ہے، چھوڑ دیں اسے۔

وکیل عزیز بھنڈاری نے کہا کہ میری گزارش بس یہ ہے کہ آئندہ کے لیے راستہ بند کرنا ہے۔

کیس کی سماعت 24 فروری تک ملتوی

ملٹری کورٹس میں سویلینز کے ٹرائل سے متعلق کیس کی سماعت 24 فروری تک ملتوی کر دی گئی۔

قومی خبریں سے مزید