(گزشتہ سےپیوستہ)
میری عمر کا بڑا حصہ مشاعرے پڑھنے میں گزرا ہے آج اس شہر میں، کل نئے شہر میں بلکہ ایک ملک سے دوسرے ملک کا سفر جاری رہتا ہے۔ ایک دفعہ نذیرناجی سے ان کے کسی قاری نے کوئی سوال پوچھا انہوں نے جواب میں لکھا کہ آپ عطاالحق قاسمی سے رجوع کریں وہ ان دنوں اتفاق سے پاکستان میں ہیں اور واقعی صورتحال تقریباً ایسی ہی تھی ان دنوں یہی صورتحال عباس تابش کی ہے اور وہ مشاعرہ در مشاعرہ نظر آتے ہیں میرے خیال میں بیرون ملک مشاعرے ان سے زیادہ کسی نے نہیں پڑھے، کچھ عرصہ بیشتر دو تین مزید خوبصورت شاعر اس ریس میں شامل ہوئے ہیں اس کا نتیجہ ابھی سےبتائے دیتا ہوں جس کے شعر کا سانس پہلے پھول گیا وہ اس ریس میں باہر ہو گا۔
تاہم شاعر صرف وہ نہیں جنہیں بیرون ملک سے مدعو کیا جاتا ہے ابھی بہت سے اے کلاس شاعر ہیں جنہوں نے باہر کا مشاعرہ نہیں چکھا اندرون ملک مشاعرے بھی ایک سے بڑھ کر ایک ہوتے ہیں لیکن زمانہ بدل گیا ہے ۔
ایک بات ہے کہ جس زمانے کا میں ذکر کر رہا ہوں اس کے اپنے ہی مزے ہوتے تھے شاعروں کے لئے ویگن بھیجی جاتی تھی اور سارا رستہ ادبی گفتگو ،ادبی چٹکلے ،غزلوں کی پیروڈی کی جاتی تھی جو معاوضہ ملتا تھا وہ اس سستے زمانے کے لحاظ سےٹھیک ہی تھا مگر بعض عجیب وغریب حرکات بھی اس زمانے میں دیکھنے میں آئیں ایسی صورتحال اسی صورت میں پیدا ہوتی تھی جب میزبان کاادب سےبس ’’ناجائز‘‘ سا تعلق ہوتا تھا مثلاً ایک دفعہ پنجاب کے ایک شہر کے میزبان نے شعراء کو لانے کیلئے جو ویگن بھیجی اس میں بکروں کی کھالیں تھیں جو لاہور میں ڈراپ کرنا تھیں واپسی پر اس ویگن میں شعرا ءکو لیکر جانا تھا اس طرح قتیل شفائی بتاتے تھے کہ ایک گائوں کے زمیندار نے انہیں مشاعرہ کے لئے مدعو کیا تھا اور نہ صرف معقول معاوضے کی آفر کی اور اپنے گائوں میں انہیں اپنی محل نما حویلی میں پورے پروٹوکو ل سے ٹھہرایا۔صبح مشاعرہ تھا پورا گائوں امڈ آیا تھا پہلے میوزک کی محفل منعقد ہوئی اور اس کے بعد زمیندار مائیک پر آیا اور کہا آپ سب کا شکریہ کہ آپ میرے بیٹے کے ولیمے میں شریک ہوئے پھر اس نے قتیل صاحب کو مخاطب کرکے کہا آپ میری خوشی میں شریک ہوئے آپ کے فلمی گیت میں نے بھی سنے ہیں اور گائوں والوں نے بھی میں آپ سے درخواست کروں گا کہ آپ اپنا کوئی پسندیدہ گانا سنائیں ۔قتیل صاحب نے صرف اتنی ہی بات بتائی تھی جو میں نے آپ کو بتا دی ۔
دلی کے ایک مشاعرے میں بسمل صابری بھی مدعو تھیں جن کا مشہور شعر ہے
وہ عکس بن کے میری چشم تر میں رہتا ہے
عجیب شخص ہے پانی کے گھر میں رہتا ہے
اپنی باری پرا سٹیج پر آئیں تو انہوں نے مشاعرے کے ناظم سے شکوہ کرتے ہوئے کہا کہ آپ نے میرا مکمل تعارف نہیں کرایا میں صرف شاعرہ نہیں گورنمنٹ کالج میں گریڈ سترہ کی پروفیسر بھی ہوں۔ناظم نے ان سے معذرت کی اور درخواست کی کہ وہ اپنے کلام سے محظوظ فرمائیں اس پر بسمل نے میری طرف دیکھا اور پوچھا کون سی غزل سنائوں؟میں نے کہا وہی ڈڈو (مینڈک) والی، شکر ہے وہاں کسی کو پنجابی نہیں آتی تھی ۔
ایک واقعہ تو مجھے بھولتا ہی نہیں سبی بلوچستان میں مشاعرہ تھا اس میں ملک کے نامور شعراءمدعو تھے مشاعرے کی نظامت جس کے ذمے کی گئی اس نے پہلے مقامی شعراء کا تعارف بہت مضحکہ خیز انداز میں کرایا اس پر میں نے شبنم شکیل کے شوہر شکیل صاحب سے جو وہاں سیکرٹری لیول کے عہدے پر تھے گزارش کی کہ جونہی مہمان شعراء کا دور شروع ہو اس کے لئے نظامت کوئی اور صاحب کریں۔چنانچہ ایسا ہی کیا گیا ’’معزول‘‘ ہونے والے ناظم نے آخری اعلان یہ کیا کہ بقیہ مشاعرے کی نظامت فلاں صاحب کریں گے اس کے بعد اس نے احمد ندیم قاسمی، احمد فراز اور دوسرے بڑے شاعروں کی طرف اشارہ کرکے کہا ’’ویسے بھی میں ان لوگوں کو نہیں جانتا‘‘
کراچی مشاعروں کا کیپٹل ہے وہاں کے سامعین بھی خوش ذوق ہیں وہاں ایک صاحب جن کا نام یاد نہیںآ رہا داد دینے میں لاجواب تھے عموماً پہلی صف میں ہوتے تھے شاعروں کی نظر ان پر پڑتی تو نہال ہو جاتے تھے وجہ یہ تھی کہ داد دینے میں ان کا مقابل کوئی نہیں تھا جونہی شاعر آخری شعر کے آخری حصے پر ہوتا وہ اتنی بلند آواز میں سبحان اللہ کا ورد کرتے کہ آخری صفوں تک ان کی داد پہنچ جاتی شاعروں کے ناظم حضرات انہیں اپنے مشاعروں میں بطور خاص شرکت کی دعوت دیتے ۔خود شعراء کی نظریں بھی انہیں تلاش کر رہی ہوتیں ایک دو شاعر ایسے بھی ہوتے جنہیں صرف اس ’’در‘‘سے مرادیں پوری ہونے کی توقع ہوتی۔ ایک بہت دلچسپ بات مشاعرہ ختم ہونے اور معاضہ ملنے کے بعد کچھ شعراء واش روم کا رخ کرتے اور اندر سے کنڈی لگا کر پیسے گنتے کہ کوئی کمی بیشی تو نہیں ؟ترنم سے پڑھنے والے اپنی باری آنے سے پہلے ہی سرگوشی کے عالم میں اپنی غزل ترنم سے گنگنا رہے ہوتے۔ احسان دانش کا ایک شاگرد مشاعرہ شروع ہونے سے پہلے واش روم میں گیا جب زیادہ دیر ہو گئی تو احسان صاحب نے دستک دیتے ہوئے پوچھا کیا کر رہے ہو مشاعرہ شروع ہونے والا ہے اندر سے آواز آئی ’’استاد ٹیون پکا ’’رہا‘‘ ہوں۔
اور آخر میں مشاعروں سے محبت کرنے والے اللہ دتہ ادیب محنت کش تھے اور محنت کے صلے میں رب نے انہیں بہت نوازا ،یہ کھاریاں میں رہتے تھے پہلے صرف اللہ دتہ ہوتے تھے پھر انہوں نے اپنے نام کے ساتھ سیٹھ لکھنا شروع کر دیا اور بالآخر انہوں نے سیٹھ اللہ دتہ کے آخر میں ادیب کے لفظ کا اضافہ بھی کر دیا۔ مشاعرہ ہال میں بڑے بڑے بینرز پر ان کے اقوال زریں درج ہوتے کچھ بینر اقبال اور قائداعظم کے ملفوظات پر بھی مزین ہوتے مشاعرے کے آخر میں سیٹھ صاحب نے مجھے اور ضمیر جعفری کو اس دور کے حوالے سے بہت بھاری معاوضہ دیا جس پر ضمیر صاحب نے انہیں مخاطب کیا اور کہا اگر آپ ہم لوگوں کو اس طرح پیسے دیتے رہے تو ایک دن آپ سیٹھ نہیں رہیں گے اور ہم ادیب نہیں رہیں گے۔