’’انصاف میں تاخیرانصاف سے انکار کے مترادف ہے‘‘ یہ ایسی حقیقت ہے جس کا مشاہدہ ہماری عدالتوں میں عام ہے۔ ایسی مثالوں کی کمی نہیں کہ عشروں طویل قید بھگتنے کے بعد ملزم بے گناہ قرار پاکر باعزت بری ہوگیا۔ تاہم جدید برق رفتار ذرائع اور انسانی مداخلت سے آزاد ٹیکنالوجی نے آج تمام کاروبار زندگی کی طرح نظام انصاف کو بھی انتہائی تیزرفتار اور بدعنوانی کے امکانات سے پاک رکھنے کی راہیں ہموار کردی ہیں۔ دنیا بھر میں ان جدید سہولتوںکے ذریعے معاملات میں سرکاری اہلکاروں کا عمل دخل کم سے کم کرکے ڈیجیٹائزیشن کو رائج کیا جارہا ہے۔ پاکستان میں بھی حکومت اس سمت میں پیش رفت کیلئے بڑی تندہی سے کوشاں ہے۔ محصولات کی وصولی کے نظام کو جدید طریق کار پر منتقل کرنے پر خصوصی توجہ دی جارہی ہے۔ کسٹم میں تشخیص کے نظام کو بے چہرہ اور خودکار بنادیا گیا ہے۔وزیراعظم نے اس حوالے سے گزشتہ روز جدید ٹیکنالوجی پر مبنی مقدمات کے نظامِ تفویض و انتظام کا افتتاح کر تے ہوئے توقع ظاہر کی ہے کہ نیا نظام شفافیت اور فوری انصاف کی فراہمی میں اہم کردار ادا کرے گا۔ تقریب سے خطا ب میںانہوں نے اس نظام کے نفاذ پر وزیر قانون اور ان کی ٹیم کو مبارکباد دی اور اس معاملے میں بھرپور تعاون پر کینیڈا اور اقوام متحدہ کے منشیات اور جرائم سے متعلق ادارے(یو این او ڈی سی) کا شکریہ ادا کیا۔ وزیراعظم نے بتایا کہ جدید ٹیکنالوجی نہ ہونے اور بدعنوانی کی وجہ سے کھربوں روپے خزانے میں جمع ہونے کی بجائے عشروں سے تاخیر کا شکار تھے تاہم موجودہ حکومت نے اپنے گیارہ ماہ میں نظام کی خامیوں کو دور کرنے کی ہر ممکن کوشش کی ہے اور اس مقصد کیلئے مزید اقدامات تیزی سے مکمل کیے جارہے ہیں۔ وزیر اعظم نے انکشاف کیا کہ ان کوششوں کے نتیجے میں سندھ ہائی کورٹ نے صرف ایک دن میں 24 ارب روپے کے مقدمات کا میرٹ پر فیصلہ کیا ہے اور یہ رقم اب قومی خزانے میں جمع ہو گی نیز ایسی مزید رقوم کو قومی خزانے میں واپس لایا جاسکے گا۔ اس موقع پر یواین اوڈی سی کے کنٹری ڈائریکٹر نے صراحت کی کہ پاکستان جدیدیت کے راستے پر گامزن ہے اور نئے نظام سے فوری انصاف کی فراہمی ممکن ہو سکے گی جبکہ کینیڈا کی ہائی کمشنرکا کہنا تھا کہ ان کے ملک کا مکمل تعاون اس معاملے میں پاکستان کو حاصل رہے گا۔ وفاقی وزیر قانون و انصاف نے بتایا کہ پاکستان میں ای گورننس کے فروغ کیلئے پیش رفت جاری ہے ۔ حکومت کی کوششیں بلاشبہ معاشی استحکام کے حصول اور قرضوں پر انحصار ختم کرنے کے لیے ناگزیر ہیں۔ خوردہ فروش اس حوالے سے ایک بہت اہم طبقہ ہے ملکی معیشت جس کا حصہ 19 فی صد لیکن انکم ٹیکس کی ادائیگی میں صرف ایک فی صد ہے۔تاہم یہ امر اطمینان بخش ہے کہ وزیر اعظم ایسے تمام معاملات پر براہ راست توجہ دے رہے ہیں۔ جمعے کو پاکستان ریٹیل بزنس کونسل کے وفد سے ملاقات میںوزیرِ اعظم نے خوردہ فروشوں کے مسائل کے حل کی یقین دہانی کراتے ہوئے واضح کیا کہ ایسے ریٹیلر جو ٹیکس نیٹ میں موجود ہیں ان پر ٹیکس کا مزید بوجھ نہیں ڈالا جائے گا تاہم جو ریٹیلر ٹیکس نہیں دیتے انکو نیٹ میں لانے کیلئے ترجیحی بنیادوں پر اقدامات کیے جارہے ہیں۔ اس ضمن میں نقد خرید و فروخت کے بجائے تمام مالی لین دین کے لازماً آن لائن انجام دیے جانے پر بھی کام جاری ہے۔ یہ توقع بے جا نہیں کہ یہ اقدامات قومی معیشت کی بہتری میں بہت مثبت کردار ادا کرینگے لیکن محصولات میں اضافے کے ساتھ ساتھ ان کے درست استعمال کا یقینی بنایا جانا اور ٹیکس ادا کرنیوالوں کو دنیا کے ترقی یافتہ ملکوں کی طرح خصوصی مراعات کا فراہم کیا جانا بھی ضروری ہے۔ اسی صورت میں ملک کے ہر شہری میں بخوشی ٹیکس کی ادائیگی کا جذبہ پیدا ہونا ممکن ہے اور اسی طرح پورے معاشرے میںٹیکس کلچر عام ہوسکتا ہے۔