میرے ایک دوست اسلام خان کا دعویٰ ہے کہ وہ ترقی و خوشحالی کے سفر پر گامزن ہے اور بہت جلد گاؤں کے سب مکینوں کو پیچھے چھوڑ دے گا۔مگر مجھے اس کی باتیں اور دعوے خیال ِخام محسوس ہوتے ہیں اور لگتا ہے کہ وہ خوش فہمیوں کے لاعلاج مرض میں مبتلا ہے ۔یونہی خیال آیا کہ کیوں نہ تمام اعداد و شمار اور حقائق قارئین کے سامنے رکھوں اور رائے معلوم کروں کہ شاید مجھے مغالطہ ہواہو۔
اسلام خان (فرضی نام)کی عمر تقریباً78سال ہے اور اس کی یہ باتیں میں بچپن سے سنتا آرہا ہوں۔گاؤں کا وہ چوہدری جس سے اسلام خان مشکل وقت میں قرضہ لیتا ہے ،اس کا خیال ہے کہ وہی اس کا سب سے بڑا دشمن اور ترقی کی راہ میں رکاوٹ ہے ۔لیکن مجھے لگتا ہے کہ اسلام خان اپنی شاہ خرچیوں اور غلط فیصلوں کے سبب اس حال کو پہنچا ہے ۔مہنگائی کے اس دور میں اسلام خان کی آمدن کا تخمینہ بمشکل 10377روپے ہے مگر اس کے اخراجات 18877روپے ہیں۔اس شارٹ فال کو پورا کرنے کے دو ہی طریقے ہیں ،یا تو اسلام خان اپنے اخراجات کم کرے یا پھر آمدن بڑھائے مگر وہ قرض لیکر اخراجات پورے کرنے کی کوشش کرتا ہے اور اس دلدل میں مسلسل دھنستا چلا جاتا ہے۔صورتحال کتنی گھمبیر ہے اس کا اندازہ یوں لگایا جاسکتا ہے کہ 10377روپے اس کی آمدن ہے اور 9775روپے اسے قرضوں پر واجب سود کی ادائیگی کیلئے درکار ہیں۔گھر 1152روپوں سے چلایا جاسکتا ہے مگروہ اپنی سکیورٹی اور دفاع پر 2122روپے خرچ کرتا ہے۔اس کے چار بیٹے ہیں ،1777روپے وہ لے جاتے ہیں۔اس نے ملازمین کی جو فوج بھرتی کررکھی ہے ان کی تنخواہیں تو ایک طرف سبکدوش ہوجانے والے خدمت گاروں کو پنشن کی مد میں 1014روپے دیئے جاتے ہیں۔بالعموم کہا جاتا ہے کہ چادر دیکھ کر پاؤں پھیلائیں مگر اسلام خان پاؤں پھیلانے کے بعد سوچتا ہے کہ اب چادر وسیع کرنے کا انتظام کیسے کیا جائے۔
مثال کے طور پر 18877روپے کے اخراجات کا تخمینہ لگانے کے بعد اس نے یہ لائحہ عمل طے کیا کہ پیسوں کا بندوبست کہاں سے کرنا ہے۔اس نے سوچا5142روپے بینکوں سے قرض لوں گا،کچھ اثاثے نیلام کرکے اور گاؤں کے چوہدری سے بھاری شرح سود پر اُدھار لیکر 696روپے کا انتظام کروں گا جبکہ 2662روپے اپنے دوستوں سے جمع کرکے کام چلالوں گا۔اس کے دوست اور ہمسائے بھی اس روش سے تنگ آچکے ہیں کیونکہ یہ جب بھی ان سے مددمانگنے جاتا ہے تو یہی کہتا ہے کہ آخری بار تعاون کریں اس کے بعد میں کشکول توڑ دوں گا اور اُدھار نہیں مانگوں گا۔بعض اوقات اسلام خان کا طرز زندگی دیکھ کر دوست حیران ہوتے ہیں اور سوچتے ہیں کہ ہم دولتمند ہونے کے باوجود ایسی عیاشیوں کا سوچ بھی نہیں سکتے جو اسے قرض کے پیسوں سے حاصل ہیں۔گاؤں کا چوہدری جس سے اسلام خان ہر پانچ سال بعد قرض لیتا ہے ،وہ بھی یہی تلقین کرتا ہے کہ اپنی آمدن بڑھاؤاور اخراجات کم کرو۔لیکن اسلام خان اس بات کا اُلٹا اثر لیتا ہے۔وہ نئی گاڑیاں خریدنے اور اس طرح کے دیگر غیر ضروری اخراجات میں تو کمی نہیں کرتا البتہ بچوں کے دودھ ،بسکٹ ،بریڈ اور اس طرح کی دیگر ضروری اشیا کی خریداری روک لیتا ہے ۔جب بچے اس ظالمانہ طرز عمل پر احتجاج کرتے ہیں تو کہتا ہے کہ میں مجبور ہوں،گاؤں کے چوہدری کا دباؤ ہے ۔اس سے قرض لیا ہے تو اب اس کی شرائط بھی تسلیم کرنا پڑیں گی۔حالانکہ قرض دیتے وقت چوہدری کی طرف سے محض یہی مطالبہ کیا جاتا ہے کہ اپنے اخراجات کم کرو اور آمدن میں اضافہ کرو۔اسلام خان بذات خود یہ تجویز دیتا ہے کہ بچوں کی تعلیم اور غذائی ضروریات پر خرچ ہونے والی رقم بچا کر اس سے سود کی ادائیگی یقینی بنائی جائے گی۔
اسلام خان بہت خوش ہے کہ اس نے 18877روپوں کا بندوبست کرلیا ہے اور اب کسی قسم کی کوئی پریشانی لاحق نہیں ۔ماضی کی طرح وہ یہ دعوے بھی کرتا پھرتا ہے کہ اب مشکل دور ختم ہوچکا،بہت جلد ترقی و خوشحالی کے ایک نئے سلسلے کا آغاز ہونے والا ہے ۔میری خواہش ہے کہ اس کی یہ باتیں درست ثابت ہوں ،وہ خودکفیل ہوجائے ،اپنے پیروں پر کھڑا ہو جائے اور کسی کا محتاج نہ رہے مگر خاکم بدہن ایسا ہوتا دکھائی نہیں دے رہا۔کیونکہ اس نے اپنی آمدن میں معقول اضافے کا کوئی بندوبست کیا ہے اور نہ ہی غیر ضروری اخراجات میں خاطر خواہ کمی کا فیصلہ کیا ہے ۔جن دوستوں سے اس نے مختصر مدت کیلئے قرض لیا تھا ،ابھی تو منت سماجت کرکے اس کی ادائیگی کو موخر کروالیا ہے لیکن یہ سلسلہ کب تک چلے گا؟جیسے جیسے قرضوں کا بوجھ بڑھتا جائے گا ویسے ویسے نہ صرف ان کی واپسی ناممکن ہوتی چلی جائے گی بلکہ قرضوں پر سود کی ادائیگی ہی مشکل تر ہوجائے گی۔مثال کے طور پر 2022-23ء میں اس کی آمدن 7004روپے تھی اور اس میں سے 56فیصد یعنی 3950روپے قرضوں پر سود کی ادائیگی پر خرچ ہوگئے۔2023-24ء میں آمدن 9306روپے ہوگئی تو قرضوں پر سود کی ادائیگی کا حجم بڑھ کر 7303روپے ہوگیا یعنی کل آمدن کا 78فیصد۔اب 2024-25ء میں آمدن کا تخمینہ 10377روپے ہے تو 9775قرضوں پر سود کی مد میں ادا کرنا ہے یعنی 94فیصد آمدن اس مد میں چلی جائے گا اور آئندہ سال یعنی 2025-26ء میں اپنی پوری آمدن اس طرح جھونک دینے کے بعد بھی قرضوں پر سود کی ادائیگی نہیں ہوسکے گی تو اسلام خان کی ترقی و خوشحالی کے خواب کیسے پورے ہوں گے؟جب آپ سڑک پر آجاتے ہیں تو قرض لیکر ہی ایک نئے سفر کا آغاز کیا جاسکتا ہے لیکن اسلام خان کا مسئلہ یہ ہے کہ وہ اس قرض کو اپنی آمدن بڑھانے کیلئے استعمال کرنے کے بجائے محض وقتی ضروریات بلکہ تعیشات پوری کرنے پر خرچ کردیتا ہے تو خواب محض سراب بن کر رہ جاتے ہیں۔