اسلام آباد کی عدالت عالیہ نے شہری فیضان کی بازیابی کے بعد اس کے 8 اہلِ خانہ کا نام ای سی ایل میں شامل کرنے کا حکم معطل کر دیا۔
اسلام آباد ہائی کورٹ کے حکم پر سیکریٹری داخلہ خرم علی آغا عدالت میں پیش ہوئے۔
جسٹس بار ستار نے سیکریٹری داخلہ سے سوال کیا کہ عدالتی حکم پر نام ای سی ایل میں شامل کرنے کا کوئی ورکنگ پیپر عدالت میں پیش نہیں کیا گیا، اس حوالے سے سیکریٹری داخلہ بیانِ حلفی جمع کرائیں اور نام ای سی ایل میں شامل کر نے کے حقائق سامنے رکھیں۔
جواب میں سیکریٹری داخلہ نے کہا کہ سب کمیٹی کے چیئرمین کی جانب سے تفصیلات بھجوائی گئی تھیں۔
بابر ستار نے سیکریٹری داخلہ سے ایک ہفتے میں کابینہ سب کمیٹی کی رپورٹ اور ورکنگ پیپر کی رپورٹ پیش کرنے کا مطالبہ کیا اور کہا کہ ہر چیز کا کوئی نہ کوئی طریقہ کار ہوتا ہے، آخر ایسا کیا تھا جو نام فہرست میں شامل کیا گیا تھا، فیضان 18 سال کا بچہ ہے، اس نے ایسا کیا کیا جو اس کے گھر ریڈ کیا گیا؟
جسٹس بابر ستار نے کہا کہ اس کی بازیابی کے بعد پتہ لگا کہ کون ملزمان تھے جو اس کے اغواء کے پیچھے تھے۔
عدالت میں وکیل ایمان مزاری نے بتایا کہ ایک بچہ ہے فیملی میں جس کی عمر 13 سال ہے۔
جس پر جسٹس بابر ستار نے سیکریٹری داخلہ سے استفسار کیا کہ سیکریٹری صاحب 13 سال کے بچے کا نام بھی ای سی ایل میں شامل کیا گیا ہے، یہ کیا ہو رہا ہے؟
سیکریٹری داخلہ نے جواب دیا کہ معذرت خواہ ہوں، میں اس معاملے کو دیکھ لیتا ہوں۔
جسٹس بابر ستار نے سیکر ٹری داخلہ کو ہدایت دیتے ہوئے کہا کہ صرف فیضان کی شادی شدہ بہن صالحہ کا نام ای سی ایل میں رہنے دیں باقی نام نکال دیں۔